کشمیر میں کشیدگی
برصغیر کی تقسیم سے لے کر آج تک یوں تو کشمیر میں کشیدگی ہی رہی ہے تاہم حالات اس وقت زیادہ خراب ہو جاتے ہیں جب بھارتی فوج کی جانب سے کسی سر کردہ حریت پسند یعنی فریڈم فائٹر کو مسلح کارروائی میں مار دیا جاتا ہے۔
2016 میں برہان وانی کے قتل کے بعد اب حالات دوبارہ خراب ہو چکے ہیں کیونکہ گزشتہ ہفتے بھارتی فوج نے داد سر آپریشن میں ذاکر موسیٰ کے نام سے سے شہرت پانے والے ذاکر رشید بٹ کو ضلع ترال کے ایک مکان میں کاروائی کرکے مار دیا۔
بھارتی فوج اور میڈیا ذاکر موسیٰ کی ہلاکت کو بہت بڑی کامیابی قرار دے رہے ہیں۔ بھارت سے آنے والی رپورٹ کے مطابق وہ فوج کو انتہا ئی مطلوب تھے اور انہیں کشمیر میں القاعدہ کا کمانڈر سمجھا جاتا تھا۔
کشمیر کی آزادی کی تحریک میں نئی روح پھونکنے والے برہان وانی کے وہ انتہائی قریبی ساتھیوں میں شمار ہوتے تھے، وانی کی موت کے بعد ان کا مشن یہی ذاکر موسی ہی آگے بڑھا رہے تھے۔
بھارتی فوج کے ہاتھوں برہان وانی کی موت کے بعد پورے کشمیر میں پرتشدد مظاہروں کا کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوا جو تقریبا چار ماہ تک جاری رہا اور اس میں سو سے زائد شہری قابض فوج کے ظلم و ستم کی تاب نہ لاتے ہوئے زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔
اب ذاکر موسیٰ کی موت کے بعد پھر سے کشمیر میں احتجاج اور جلوسوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو چکا ہے، ذاکر موسیٰ کے جنازے میں ہزاروں کشمیریوں نے شریک ہوکر قابض فوج کے خلاف آخری دم تک برسرپیکار رہنے کا عزم کیا۔
مظاہروں کی شدت کو دیکھتے ہوئے بھارتی فوج نے پورے کشمیر میں کرفیو لگا دیا انٹرنیٹ اور موبائل سروس بھی بند کردی جبکہ جمعہ کے روز ز سکول اور کالجز لفظ مکمل طور پر بند کئے گئے تھے تھے تاہم اس کے باوجود مقبوضہ کشمیر میں بھرپور مظاہرے اور احتجاج کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔
قابض فوج کی جانب سے ان مظاہرین سے نمٹنے کے لیے غیر انسانی اور اوچھے کنڈے استعمال کیے جاتے ہیں آنسو گیس کے شیل اور پیلٹ گنز کا بھرپور استعمال کیا جاتا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کی تاریخ میں ان مظاہروں کے نتیجے میں 75 ہزار سے زائد کشمیری اپنی جان کا نذرانہ پیش کر چکے ہیں۔
بھارت کے انتہائی ظلم وستم کے باوجود کشمیر کی آزادی کی تحریک زور و شور سے جاری ہے،بھارت کی جانب سے کشمیر میں اس شدت پسندی اور مظاہروں کا الزام آئے روز پاکستان پر عائد کیا جاتا ہے جبکہ پاکستان کی جانب سے ان الزامات کی کی مکمل تردید کی جاتی ہے۔ تاہم پاکستان کا کشمیر کی آزادی سے متعلق اصولی موقف ہے۔پاکستان کشمیر کو برصغیر کی تقسیم کا نامکمل ایجنڈا سمجھتا ہے۔آزادی سے متعلق کشمیریوں کو پاکستان کا مکمل اخلاقی تعاون بھی حاصل ہے۔
پاکستان کشمیر کی آزادی کی حمایت کرتا ہے اور آئے روز اقوام متحدہ اور عالمی برادری کے سامنےکشمیر کا مقدمہ بھر پور طریقے سے لڑتا ہوا دکھائی دیتا ہے ہے پاکستان سمجھتا ہے کہ کشمیر اسکی شہہ رگ ہے۔ تاہم ستر سال سے زائد کا عرصہ گزرنے کے باوجود اقوام متحدہ اس مسئلہ کو حل کرنے میں میں ناکام رہی اور بھارت بھی اپنے انتہاء کے ظلم کے باوجود کشمیر کی آزادی کی تحریک کو نہ مٹا سکا۔