پاکستان یوریشن معاشی اتحاد کا دروازہ

23.05.2019
 

یوریشین معاشی اتحاد میں پاکستان کی جغرافیائی حثیت کو نظر انداز کرتے ہوئے مغربی میڈیا نے ہمیشہ اسے ایک مفلوک الحال اور دہشت گردی سے دوچار ملک کے طورپر پیش کیا، ان تمام تر چیزوں کے باوجود پاکستان برصغیر پاک و ہند کا اہم ملک ہونے کے علاوہ یہ اپنی سر حدوں سے ایران، یوریشین یونین، سارک اور چین کو جوڑنے کی مکمل صلاحیت کا حامل ہے، شاید اس لیے روس جنوبی ایشیا میں پاکستان کی جغرافیائی اہمیت کا دارک کرتے ہوئے اس سے اپنے تعلقات کو تیزی سے وسعت دے رہا ہے، اسی طرح روس اپنے دوسرے اتحادیوں کے ساتھ پاکستان کو کثیر المرکزی یوریشین اتحاد کا حصہ دیکھنا چاہتا ہے، مزید برآں روس اور چین کی دفاعی و معاشی شراکت داری میں پاکستان کو ایک اہم رکن کے طور پر دیکھاجارہا ہے، مضمون کا پہلا حصہ پاکستان کو یوریشین ممالک سے جوڑتے ہوئے معاشی تصورات کو زیربحث لاتا ہے اورآگے چل کر یہ مضمون پاک روس پروان چڑھتی شراکت داری کا تزکرہ کرتا ہے، مضمون کے دوسرے حصے میں ممکنہ طور پر امریکہ کی جانب سے اٹھائے جانے والے تین اقدامات کو مختلف زاویہ نظر سے زیر بحث لایا گیا ہے جو استعماری امریکہ کی جانب سے پاکستان میں کثیرمرکزی معاشی اتحادوں اور معاہدوں کو روکنے کے لیے کیے جاسکتے ہیں۔      

اتحادوں کو سنگم

پاکستان کی جغرافیائی اہمیت مختلف معشتوں کو اتحاد کی شکل دینے کے لیے یکتا حثیت رکھتی ہے جس میں پاکستان کی زمینی شکل اور چین کی سرمایہ کاری قابل ذکر ہے۔

یوریشین اتحاد:

روس کی رہنمائی میں تشکیل پانے والے تجارتی اتحاد میں بیلاروس، آرمینیا، قزاخستان اور کرغزستان شامل ہیں، دونوں موخر الزکر ممالک معاشی اعتبار سے جنوبی ایشیا سے جڑ ہوئے ہیں، جبکہ ازبکستان کی متلون مزاجی اور افغانستان میں امن عامہ کی مخدوش حالت جنوبی ایشیا کے ساتھ براہ راست تجارت میں سب سے بڑی رکاوٹیں گرادنی جاتی ہیں۔ اس مسلے کے حل کے لئے دو متبادل ممکنات جو علاقائی سطح پر اس رکاوٹ کے لئے موجود ہیں، ان میں سے ایک بحیرہ کسیپین کے راستے روس، ایران ، بھارت ، شمالی جنوبی راہداری ہے اور دوسری چین پاکستان معاشی راہداری ہے،اضافی طور پر یوریشین معاشی اتحاد کو سارک ممالک کے ساتھ جوڑنے کے لئے پاکستان جنوبی ایشیا کو براہ راست تجارت کے مواقع فراہم کر سکتا ہے۔

ایران:

اسلامی جمہوریہ ایران اگلے سال معاشی پابندیوں سے آزاد ہو جائے گا، تو ایسی صورت میں توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ ایک قابل ذکر معاشی ترقی کی راہ پر چڑھ جائےگا، کیونکہ تمام مغربی ممالک اس سے ہر ممکن فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں، یورپ براہ راست  ایران میں سرمایہ کاری میں دلچسپی لے رہا ہے، جبکہ چین اور بھارت کی ایران کے ذرائع نقل و حمل کی تعمیر ، بنیادی ڈھانچہ اور پراپرٹی کےلین دین میں دلچسپی نہایت اہمیت کی حامل ہے ، چین خاص طو ر پر پاک ایران گیس پائپ لائن کا حصہ بن کر اپنے مقصد تک رسائی چاہتا ہے، اور اسی طرح بھارت چابہار میں اپنی سرمایہ کاری اور زیر سمندر ایران بھارت گیس پائپ لائن منصوبے کو پایا تکمیل تک پہنچانے کا خواہش مند ہے، اگرچہ نئی دہلی اور تہران کی باہمی تجارت کے لئے پاکستان کے زمینی راستے موجود ہیں، تاہم کچھ سیاسی وجوہات کی بنا پر انہیں پایا تکمیل تک پہنچانا دشوار ہے، اس لئے ایران اور سارک رہنما بھارت کے تجارتی تعلقات کے اہداف کو سمندری راستوں سے پورا کیا جا سکتا ہے۔

سارک:

جنوبی ایشیائی تنیظم سارک پاکستان سے بنگلہ دیش تک پھیلی ہوئی ہے، جس میں بھارت جیسی بڑی معیشت بھی شامل ہے ، یہ علاقائی اتحاد اگر چہ باہمی معاشی اہداف حاصل کرنے میں مشکلات کا شکار ہے تاہم اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ اس میں معاشی اہداف حاصل کرنے کی صلاحیت ہی نہیں، اگر پاکستان اور بھارت کے درمیان باہمی تنازعات کو ختم کر دیا جائے ( جوکہ شائد دونوں ممالک کی شنگھائی تعاون تنظیم میں مکمل شمولیت سے ممکن ہوجائے) تب یہ سارک مکمل طور پر معاشی صلاحیت حاصل کرنے کے قابل ہو جائے گی، اور اس سے یوریشین معاشی اتحاد کو بھی فائدہ ہو گا۔

سارک کے دو رکن بھارت اور بنگلہ دیش چین کے ساتھ اپنی تجارت بنگلہ دیش چین انڈیا میانمار راہداری سے بڑھا سکتے ہیں، لیکن یہ تجارت بھارت کے شمال مشرق اور چین کے یوننان (Yunnan)صوبے تک محدود رہے گی تاہم مستقبل میں اس راہداری کو توسیع دے کر تجارت بڑھائی جا سکتی ہے، اس منصوبے کا مقصد یوریشیا کے دو معاشی دیوتاؤں کو آپس میں باہمی تجارت کے لئے جوڑنا ہے ، شائد اس راہداری کے علاوہ ان دونوں ملکوں کے لئے چین پاکستان معاشی راہداری کی ضرورت پڑی، اس راہداری سے بھارت بہت زیادہ معاشی فوائد حاصل کر سکتا ہے ، یہ راہداری بھارت کو چین کے دو بڑے پیداوری علاقے تبت اور شنکیانگ سے جوڑ تی ہے ، لیکن اس میں سب سے بڑی رکاوٹ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر ہے،اگر اس کا حل نکال لیا جائے یا پھر مشترکہ معاشی اہداف حصول کے لئے باہمی طور پر یہاں معاشی تجارت کے راستوں پر اتفاق کر لیا جائے، تو اس سے سماجی اور معاشی ترقی کو فروغ ملے گا۔

بھارتی ایرانی تجارتی حکمت عملی بذریعہ پاکستان پر پہلے ہی بحث کی جاچکی ہے، اب آخری پہلو کے طور جائزہ لیتے ہیں کہ پاکستان کیسے سارک کی تجارت کو  وسعت دیتے ہوئے اسے یوریشین یونین کے ساتھ جوڑ جاسکتا ہے، اور پہلے ہی شمالی جنوبی راہداری جو بھارت اور روس کو آپس میں ملاتی ہے پر بھی گفتگو کی جاچکی ہے، لیکن بھارتی ایرانی تجارت سمندر کی بجائے زمینی راستے سے زیادہ موثر ہوگی، اور اس سےپاکستان کو بھارتی ریل روڈ کے ذریعے روس تک رسائی میسر آتی ہے جوا یران اور وسطی ایشیا سے گز کر جائے گی اور اس کا بنیادی ڈھانچہ پہلے ہی مکمل کیا جاچکا ہے قزاخستان، ترکمانستان ایران حصہ پہلے ہی سے کام کررہا ہے، اگر بھارت ،ایران بزریعہ پاکستان ریل روڈ کے زریعے جڑ جاتے ہیں تو پھر ایک دن بھارت اس قابل ہوجائے گا کہ وہ سمندر خشکی پھر سمندر خشکی (بحیرہ عرب وبحیرہ کسپین) کی بجائےاپنی اشیا براہ راست روس تک پاکستانی راستے کو استعمال کرتے ہوئے بھیج سکتا ہے۔

معاشی سوچ:

چین، پاکستان تجارتی راہداری کی جغرافیائی حیثیت کاادارک کرتے ہوئےخطہ جاتی چار اتحادوں کو جوڑ کر ٹرانس پاکستان تجارتی راہداری قائم کرنے کاخواہاں ہے تاکہ معشیت کے ایک ہی مرکزمیں تمام لڑیوں کو پرویا جاسکے اسی حکمت عملی کے تحت دونوں ملکوں کے درمیان قراقرام ہائی وے کی توسیع کے علاوہ اس کے متوازی ریل، صنعتی زون کا قیام اور گوادر سے لیکر چین کی سرحد تک پائپ لائنوں کا جال بچھانا شامل ہے، جیسا کہ اس کا ذکر پیپ اسکوبار کچھ یوں کرتے ہیں کہ "توانائی کی ضروریات ایران-پاکستان-چین پائپ لائن کے ذریعے پوری کی جائیں گی اور اسی منصوبے کے تحت بیجنگ اسلام آباد کے تعاون سے اس راہداری کے ایک عنصر کے طور پر دنیا کےبڑے شمسی توانائی فارم کی تعمیر بھی ہے۔ 

اس ہمہ جہتی منصوبے سے چین کو عرب کے پانیوں تک براہ راست معاشی راستہ میسر آئے گا اور یہ چین کو میانمار میں دفاعی نقصانات کے ازالے کے لیے بھی معاون ہے اور آبنائے سلت ملاک (ملککا) سے بھی تحفظ فراہم کرے گا، چین پاکستان راہداری نہ صرف چین کا دفاعی محور ہے بلکہ اسے معشیت کا محور گردانا جارہا ہے چین جو معاشی طورپر مشرق وسطیٰ کے تیل کے ذخائر پر انحصار کرتا ہے اسے اس سے براہ راست راستہ مہیا ہوگا۔ 

اضافی طور پر وسطی ایشیا (یوریشین معاشی اتحاد ) اور پاکستان (سارک) کو سڑکوں اور ریل کے ذریعے چین کے صوبے شنکیانگ تک جوڑنے کے منصوبے سے خطہ جاتی ترقی کا خواب شرمندہ تعبیر ہوسکے گا، اور شنکیانگ کو صنعتی و تجارتی مرکز بنانے سے چین یوریشین معاشی اتحاد، سارک اور ایران اس سے براہ راست جڑجائےگا اور اس سے براعظموں کے ایک دوسرے سے جڑنے کے علاوہ اس خطے کی دفاعی و معاشی توسیع بھی ممکن ہوگی۔

روس پاکستان کی تزویراتی (سٹرٹیجک ) شراکت داری 

روایتی طورپر جنوبی ایشیا کی جغرافیائی سیاست میں روس اور بھارت کے دوستانہ تعلقات کی وجہ سے پاکستان اور روس کی دفاعی شراکت داری کا سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا، لکین اب کثیر مرکزی دنیا کی تشکیل نے خطہ جاتی سیاست کو یکسر تبدیل کرکے رکھ دیا ہے، اور مستقبل میں کچھ بھی ممکن ہے کے تصور کو جلا بخشی ہے، دنیا میں  ہونے والی تبدیلیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے بھارت کا دوست ہونے کے باوجود روس اور پاکستان ایک دوسرے کے قریب آرہے ہیں، اس نئی روایت نے جنوبی ایشیا کے خطے میں غیر متوقع تبدیلی کو جنم دیا ہے تاہم یہ تبدیلی بھارت کے لیے ہرگز منفی تحریک کو جنم نہیں دے رہی، بلکہ یہ خطے کے لیے ایک مثبت تبدیلی ہے۔ 

سیاسی و جغرافیائی کھیل کا میدان: 

سرد جنگ کےخاتمے نے جنوبی ایشیا کی جغرافیائی سیاست کو جنم دیا جس کے نتیجے میں بھارت اور پاکستان کے درمیان ایٹمی ٹکنالوجی کا حصول بڑھ گیا باہمی تقابل کی اس فضا سے روس اور بھارت کی دفاعی شراکت داری جبکہ دوسری طرف امریکہ اور پاکستان کی شراکت درای نے جنم لیا، اور اس کے بعد دونوں طاقتوں کی خارجہ پالیسی نےجنوبی ایشیا کو خاص اہمیت نہ دی، جس کے نتیجے میں بھارت مغرب کی طرف اور پاکستان مشرق کی طرف راغب ہوا، نئی دہلی نے واشگٹن کی طرف توجہ مبذول کی تو اسلام آباد نے بیجنگ سے مراسم گہرے کیے لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ دونوں نے اپنے تاریخی شراکت دار روس اور امریکہ سے منہ موڑ لیا، لیکن دنیا میں ہونے والے تغیر نے دونوں ممالک کو اپنے اپنے قومی مفاد کی تحفظ کے لیے نئی حقیقتوں سے روشناس کرایا۔ 

دوہزارپندرہ اس نکتے پر منتج ہورہا ہے کہ پاکستان چین کا وفادار ساتھی بن کر ابھرا رہا ہے اور دوسری طرف بھارت روس اور امریکہ کےمابین اپنے تعلقات کو متوازی کرنے کاخواہاں ہے، وزیراعظم نریندر مودی ایک طرف کثیر مرکزی دنیا کا تصور لیے روس کے ساتھ اپنی فوجی شراکت داری کو فروغ دے رہے ہیں اور دوسری طرف معاشی و دفاعی حوالے سے خطے میں امریکی اہداف کے حصول کے لیے معاونت بھی فراہم کررہے ہیں تاکہ چین کو امریکہ کی مدد سے خطے میں محدود کیا جاسکے ، بھارتی نکتہ نظر کے تحت پاکستان چین کےلئے جنگ لڑرہا ہے اور اپنی مغربی سرحدوں کے تحفظ کو نظر انداز کیے ہوئے ہیں جبکہ چین اور پاکستان کا کہنا ہے کہ بھارت امریکی شراکت داری سے دونوں کے خلاف محاذ بنا رہا ہے، جنوبی ایشیا کی ریاستوں کے درمیان تضاد کے باوجود یہ یوریشین ادارہ جاتی اقدام سے ہر ممکن فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں اور اس کی واضح مثال بیک وقت شنگھائی تعاون تنظیم میں دونوں کی شمولیت ہے۔

کریملن کا حساب کتاب:   

اگرچہ یہ خطہ جاتی ترقی روس سے براہ راست جڑی ہے، ماسکو کے بیجنگ اور نئی دہلی سے بہت گہرے دوستانہ مراسم ہیں اور ماسکو کے پاس یہ مخفی صلاحیت موجود ہے کہ وہ بیجنگ اور نئی دہلی کے درمیان کسی بھی باہمی تنازعے کی صورت میں ثالثی کا کردار ادا کرسکتا ہے تو یہ کردار پاکستان اور بھارت کے درمیان کیوں ادا نہیں کیا جاسکتا؟ تاہم موجودہ سیاسی جغرافیائی صورتحال کے پیش نظر امریکہ جو تقسیم اور فتح کی حکمت عملی پر کار پابند ہے اسے یہ ہرگز قبول نہیں، اس لیے اسی سوچ کے پیش نظر ماسکو نے اسلام آباد سے ہما سمتی مراسم بڑھانے شروع کردیے ہیں اور یہ اس امر کا عکاس ہے کہ جس طرح بھارت اور چین کے درمیان روس اپنا کردار ادا کرتا ہے تو اسی طرح پاکستان اور بھارت کے درمیان بھی تعلقات کو متوازی رکھنے میں کردار ادا کیا جائے۔ 

اگر یہ حکمت عملی کامیاب ہوتی ہے تو پھر امریکہ اس کھیل سے باہر ہوجائے گا ، تاہم بھارت امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات کو مزید وسعت دے گا اور پاکستان بھی امریکہ کا قابل اعتماد ساتھی تصور کیا جاتارہا ہے اس لیے شاید بھارت امریکہ کے ساتھ تعلقات قائم کرکے توازن پیدا کرنا چاہتا ہے اور جبکہ روس ان دونوں کے درمیان کشیدگی کو ہر ممکن طور پر کم کرنے کے لئے دونوں کے ساتھ مل کر کام کرنے کا خواہاں ہے، بالکل اس طریقے سے جیسا وہ بھارت اور چین کے درمیان اپنا کرداربخوبی نبھا رہا ہے، بھارت اور پاکستان کے درمیان اعتماد کی کمی ہی شاید اس "سنگم" میں رکاوٹ ہے، معاشی و سماجی ترقی کے لیے سارک جیسی منافع بخش سہولت ہونے کے باوجود ان دنوں ممالک نے اس سے فائدہ نہیں اٹھایا اور اس طرح اب یوریشین معاشی اتحاد بھی ان کے لیے ایک موقع ہے تاکہ اعتماد کو بحال کرکے خطہ جاتی ترقی کے لیے کام کیا جائے، بھارت کی یوریشین اتحاد میں شرکت اس کے لیے تقویت کا باعث بنے گی، کثیرمرکزی نظریے اور طاقتوں کے سنگم کے مستقبل کے پیش نظر روس دونوں ملکوں کے درمیان باہمی کشیدگی اور تناو کو کم سےکم رکھتے ہوئے مشترکہ معاشی مفادات کے حصول اور امن کے لیے ہمہ دم خارجی اور دفاعی طور پر کوشاں نظر آتا ہے۔

روس کی پاکستان سے بڑھتی قربت: 

اوپر دیے گئے پراگراف میں روس کی پاکستان سے دفاعی و معاشی شراکت دراری کی وجوہات بتائی گئی ہیں اور اب یہ دیکھنا ہے کہ روس کس سمت میں پاکستان سے قربت بڑھا رہا ہے،سب سے پہلے جون دوہزار چودہ میں روس اور پاکستان کے درمیان حملہ کرنے والے ہیلی کاپٹروں کی فروخت کی بات سطح پر نظر آتی ہے اور پھر روس نیٹو کے انخلا کے بعد افغانستان میں اور اس کی سرحدوں پر استحکام بھی چاہتا ہےلکین اس کی اہم وجوہات اوپر تفصیل سے بیان کی جاچکی ہیں اس قربت کا سب سے مظبوط محرک کثیر مرکزی دنیا کے لیے زیادہ سے زیادہ فوائد حاصل کرنا اور اسے نتیجہ خیز بنانے کے لیے پاکستان اور بھارت کے درمیان توازن کی ضرورت ہے جس کے پیش نظر روس پاکستان کے قریب سے قریب تر آرہا ہے۔

صرف فوجی تعلقات ہی گہرے نہیں ہورہے بلکہ روس مستقبل قریب میں پاک ایران چین گیس پائپ لائن کی تعمیر میں بھی شامل ہوجائے گا۔

معاشی مواقع اور نوشتہ دیوار کو پڑھتے ہوئے روس پاکستان کے ساتھ ہماقسمی تعلقات کو ازسرنو پروان چڑھا رہا ہے، چین پاکستان تجارتی راہداری کی تکمیل کے بعد پاکستان یوریشین معاشی اتحاد کے کے ساتھ آزاد تجارتی معاہدے پر کاربند ہوجائے گااور اس سے دونوں ممالک کے درمیان شراکت داری کو مزید تقویت ملے گی اور شاید اس لیے اب دونوں ممالک پہلے باہمی ثقافتی تبادلے کے سال کو منانے کی بھی تیاریاں کررہے ہیں پاکستان کے قومی فوجی بینڈ کی ماسکو کی عالمی موسیقی کی تقریب میں شرکت اس کی ایک کڑی ہے، اواس میں کوئی شک نہیں کہ اب دونوں ملک اپنے باہمی مراسم کو مزید تقویت دے رہیے ہیں تاکہ ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگی کو فروغ دے کر معاشی و تجارتی فوائد بھی حاصل کیے جا سکیں جیسا کہ اس مضمون میں بھی بیان کیا گیا ہے کہ کس طور پر دونوں ممالک مل کر ایک دوسرے کے ساتھ کثیر مرکزی یوریشیا کی توسیع  میں شراکت داری کررہےہیں۔ 

راہداری کی بندش 

جس طور پر چین پاکستان راہدری اور اسکے سنگم کا منصوبہ نئے مستقبل کی امید دے رہا ہے اور کثیر دنیا کی اس کامیابی کو روکنے کے لیے ممکنہ تین قسم کے خدشات بھی موجود ہیں جس میں اندرونی طور پر پاکستان میں خلفشار کو ہوا دے کر یوریشین اتحاد کی راہ روکی جاسکتی ہے اور بھارت کی جانب سے اس کثیر مرکزی دنیا کے سنگم میں جڑنے سے انکار بھی اس میں رکاوٹ ڈال سکتا ہے۔

سفارتی پر پیچ :  

سب سے بڑا خطرہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جس طریقے یوریشین اتحاد میں توسیع کا عزم لیے روس پاکستان سے جڑ رہا ہے تواس سے نئی دہلی کے واشگٹن کے ہاتھوں جانے کا خدشہ موجود ہے، اس سے غیر متوقع طور پر نقص امن عامہ کا خطے میں احتمال پیدا ہوسکتا ہے کیونکہ امریکہ اور اس کی معلوماتی بالواسطہ جنگ ہر ممکن طور پر رکاوٹیں ڈالے گی اور اس سے روس کی سرگرمیوں اور خطے کی ترقی کی کوششوں کو بھارت سے خدشات پیدا ہونگے، اگر بھارت کا صاحب اقتدار طبقہ محسوس کرتا ہے کہ روس ان سے دور ہوکر چین و پاکستان کے محور میں داخل ہورہا ہے تو یہ بھارت کی امریکہ کے ساتھ دفاعی شراکت داری کو جلابخشےگا، اوراس سے ماسکو کی جانب سے خطے میں استحکام پیدا کرنےاور مشترکہ معاشی شراکت داری کے لیے اسلام آباد اور نئی دہلی کے درمیان "ثالثی کےکردار" ادا کرنے کی وجہ معدوم ہوجائے گی۔ 

اگر روس ان تمام چیزوں کو جوڑنے میں ناکام ہوجاتا ہے (جیسا کہ امریکہ پہلے ہی اس منصوبے کو سبوتاژ کرنے کی کوشش میں ہے) تو پھر پاکستان کو علاقائی و خطہ جاتی اتحادوں کاسنگم بنانے کامنصوبہ فیل ہوجائے گا، کیونکہ پھر یہ اپنے بہت بڑے دفاعی شراکت دار بھارت کو کھودے گا اور اسےپاکستان کی صورت میں چھوٹا شراکت دار میسرآئے گا جوکبھی بھی روس کو تعلقات میں وہ درجہ نہیں دے گا جو کہ وہ چین کو دیتا ہے، اس لیے سب سے اہم چیز یہ ہے کہ روس کو پاکستان کے ساتھ شراکت داری قائم رکھتے ہوئے بھارتی پالیسی ساز اور ارباب اختیار کو مکمل اعتماد میں لینا چاہئے کیونکہ امریکہ کی جانب سے متوقع طور پر پاکستان کے ذریعے بھارت اور روس میں پھوٹ ڈالنے کی اس طریقے سے کوشش کی جائے گی جیسا کہ یوکرین کے ذریعے روس اور یورپ کے درمیان کیا گیا، ماسکو کو واشگٹن کی معلوماتی جنگ سے مکمل طور پر باخبر رہتے ہوئے روس اور بھارت کے گہرے مراسم میں کسی بھی قسم کی آنے والی مداخلت کا بروقت تدارک کرنا ہوگا۔

امریکی اثروروسوخ : 

امریکہ کی جانب سے ہرممکن کوشش کی جائے گی کہ وہ روس اور بھارت کے درمیان حائل ہوکر ان دونوں میں تفرقہ ڈال کر ایک دوسرے کے راستے اب کی بار اور ہمیشہ کےلئے جدا کردے، عمومی طور پر معلوماتی جنگ کے ذریعے امریکہ ایسا کررہا ہے لیکن یہاں خصوصی طورپر دو ایسے پہلو کاذکر کریں گے جس کے ذریعے روس بھارت شراکت داری میں رخنہ ڈالا جاسکتا ہے، پہلا پہلو یہ ہے جس سے اکثر قاری واقف نہیں کہ امریکہ دوہزار چودہ سے بھارت کی دفاعی صلاحیت کو پورا کرنے والا پہلا ملک بن چکا ہے بھارت کے دفاعی سازوسامان کا کل بارہ فیصد امریکہ کا دیا ہوا ہے اگرچہ روس کا بھارتی منڈی پر ستر فیصد غلبہ ہے تاہم اب بھارت سویت دور کی مشینری کو نئی امریکی اور اسرائیلی مشینری کے ساتھ تبدیل کررہا ہے (تل ابیب کے اسلحے کا سب سے بڑا خریدار اس وقت بھارت ہی ہے )۔ اور تبدیلی کا یہ رجحان روس کے مفاد میں تو ہرگز نہیں اس لیے اس نئے رجحان نے روس کی جانب سے پاکستان پر اسلحے کی فروخت پر لگائی گئی پابندی کو ہٹھانے پر مجبور کیا (پابندی ہٹنے سے پاکستان کے ساتھ دفاعی شراکت داری ایک دم وسیع تر ہورہی ہے)، بھارت کی امریکہ کے ساتھ بڑھتی شراکت داری قومی تحفظ کے علاوہ چین کے بڑھتے اثر ورسوخ کے خلاف بند باندھنا بھی ہے، اس کے علاوہ امریکہ بھارت کے ساتھ دفاعی تعلقات کی پینگیں ڈال کر خارجہ پالیسی کے ذریعے کثیر مرکزی دنیا کا راستہ روکنے کا بھی خواہاں ہے۔

امریکی اثروروسوخ کی بھات پر دوسری بڑی وجہ مودی اور اوبامہ کا ذاتی گھول میل ہے اوردونوں نے اس کا کھلے عام اظہار بھی کیا گزشتہ سال اوبامہ کی جانب سے مودی سے متعلق امریکی ٹائم میگزین میں ایک مختصر مضمون بھی تحریر کیا گیا، اورگزشتہ سال خزاں ہی میں مودی کے واشگٹن کے دور کے موقع پر دونوں رہنماؤں کی ایک دوسرے سے بڑھتی قربت میڈیا کی شہ سرخیوں کی زینت بنی، مارٹن لوتھر کنگ جونیئر کی یادگار پر تفریح کے دوران دونوں ایک دوسرے سے حد درجہ گھل مل گئے تھے، اس طرح جنوری میں جب ابامہ نے بھارت کے قومی دن کی پریڈ میں شرکت کی تو میڈیا نے اس سیاسی جوڑی کو "موبامہ" کی اصطلاح سے مخاطب کیا، اگرچہ اس دوستی کو سایسی مقاصد کے لیے بڑھا چڑھا کرڈرامہ کے طور پر پیش کیا گیا، تاہم دونوں رہنما ایک سچے دوست کے طور پر ابھر کر سامنے آئے لیکن یہ روس کےلیے کوئی پریشانی کاسبب نہیں تھا،لیکن مسئلہ اس وقت شروع ہوا جب اوبامہ نے اپنی دوستی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بھارت میں مخصوص پالیسی کو متعارف کرایا، وزیراعظم مودی نے اپنے اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئےمشرق کی پالیسی کومتاثر کیا اور اس سےغیر اعلانیہ طور پر چین کے ساتھ تعلقات میں کشیدگی پیدا ہوسکتی ہے،اوبامہ نے حتمی طور پر مودی سے اپنے تعلقات کو استعمال کرتے ہوئے نہ صرف امریکہ کے تعلقات کو فروغ دیابلکہ روس کے ساتھ بھارتی شراکت داری پر بھی اثر انداز ہونے کی کوشش کی، روس کی پاکستان کے ساتھ شراکت داری کو بطور خطرہ پیش کرکے بھارت میں روس کے مفادات کے خلاف مودی سے ذاتی تعلقات کو امریکی مفادات کے لیے استعمال کیا گیا، ایسی صورتحال میں روس کے صدر ولادی میرپوتین کے لئے ضروری ہے کہ وہ ہر صورت مودی کے ساتھ اپنے تعلقات کو جاری رکھیں تاکہ اوبامہ کو روسی صدر کی ترجیحات میں رخنہ ڈالنے کاموقع نہ مل سکے۔

پراگندہ کھیل

تقسیم اور فتح کے ماسٹر امریکہ ہر صورت میں پاکستان کو اس کی جغرافیائی اہمیت سے فائدہ اٹھانے سے روکنے کے لئے کچھ بھی پراگندہ کھیل کھیل سکتا ہے۔

 بلوچ علیحدگی:

صوبہ بلوچستان میں علیحدگی پسندی کا مسئلہ پاکستان میں کانٹے کی طرح چبھتا ہے، یہ پاکستان کارقبہ کے لحاظ سے سب سے بڑا صوبہ ہے اگرچہ اس کی آبادی کم ہے تاہم جغرافیائی حیثیت سے یہ بہت اہم ہے( ایران سے متصل ہے اور گوادر بندرگاہ بھی اسی میں ہے) اور یہ پاکستان کا قدرتی وسائل سے مالامال صوبہ بھی ہے، وقت کے ساتھ ساتھ یہاں علیحدگی کی تحریک بھی شدت پکڑتی جارہی ہے دہشت گردی کی وارداتوں میں اضافہ ہوا جیسا کہ گزشتہ مہینے ائرپورٹ پر حملہ بھی کیا گیا، پاکستان بار بار یہ کہتا ہے کہ دہشت گردی کی کارروائیوں میں بھارتی ہاتھ ہے، لکین یہاں امریکی مداخلت کو ہرگز نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔

بلوچستان کی اس کشیدہ صورتحال سے امریکہ ہرممکن فائدہ اٹھاتے ہوئے گوادر میں عدم استحکام پیدا کرکے چین پاکستان راہداری کو روکنے کا ہرممکنہ فائدہ اٹھائے گا، تاکہ پاکستان کو اس کی منزل مقصود سے روکا جاسکے، امریکہ اپنے وسیع ترمفاد کے پیش نظر بلوچ علیحدگی پسند تحریک جو پاکستان سے جنگ کررہی ہےکو مزید ہوا دے رہا ہےکیونکہ اس سے تکنیکی طور پر بین الاقوامی نوعیت کے مفاد وابسطہ ہیں ایک طرف تو ایران کی سرحد سے جڑا ہے اور دوسری طرف ایران کے اندر بھی بلوچستان صوبے کی تحریک چل رہی ہے ۔ 

اس لیے امریکہ ایران کے صوبے سیستان اور بلوچستان میں بھی مسائل پیدا کرکے بھارت کی جانب سے چابہار بندرگاہ کے منصوبے کو متاثر کرنا چاہتا ہے، چابہار منصوبے کے ذریعے زہدان کو خطہ جاتی ریلوے کا جنکشن بنانے کے علاوہ اسے ترکمانستان قزاخستان روس ریلوے لائن تک توسیع دینے کی مجوزہ منصوبہ بھی زیر غور ہے، بھارتی ایرانی اور روسی براہ راست سرمایہ کاری کے پیش نظر امریکہ بلوچستان کی بالواسطہ جنگ کے ذریعے رخنہ ڈالنا کا خواہاں ہے، اس لیے امریکہ نیو دہلی اور تہران میں بھی اپنا اثروروسوخ تیزی سے بڑھا رہا ہے، جیسا کہ اس خدشے کا احتمال رالف پیٹر کے "خونی سرحدوں " نامی غیرمقبول نقشے میں کیا گیا ہے جس میں نشاندہی کی گئی ہے کہ پاکستان اور ایران کے درمیان "آزاد بلوچستان"  بناکر کیسے "مشرق وسطی کی بہتر صورتحال" کی تشکیل کو سرانجام دیا جاسکتاہے۔

دہشت گردی :

بلوچ علیحدگی پسند تناظر ظاہر کرتا ہے کہ کس طور پر دہشت گردی کے ہتھکنڈوں کو بحال کیا جاسکتا ہے تاہم اس کےعلاوہ پاکستان ہرممکن طور پراپنادفاع دہشت گردی کےروائتی اسلام انتہاپسندی کے خطرات سے لڑ کر کررہا ہے، وفاق کے زیرانتظام فاٹا میں انتہا پسندی کے رجحانات فروغ پارہے ہیں اس کے علاوہ گزشتہ دہائی سے سرحد پار افغانستان سے بھی پاکستان میں عدم استحکام پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اور اس لیے فوج بلوچستان علیحدگی پسندوں کے خاتمے  اور انتہا پسندوں کا قلع قمع کرنے کے لیے پرعزم ہے۔

اس کے علاوہ افغانستان میں تقویت پکڑتی داعش بھی ایک خطرے کے طورپر موجود ہے افغانستان کے تین صوبے ہلمند، نگر ہار اور فراہ میں زور پکڑتی داعش پاکستان کے لیے ایک خطرہ کا سبب ہے، داعش پہلے ہی ڈیورنڈ لائن کو ضم کرکے پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش اور میانمار پر مشتمل ریاست ہند بنانے کا دعوی کر چکی ہے،،،یہ نگرہار صوبے کو بنیاد بناتے ہوئے اپنے اس غیر حقیقی مقاصد کے حصول کے لئے پاکستان میں اپنی جڑیں گہری کر سکتی ہے،اگر مزید طالبان اس گروپ میں آ کر ملتے ہیں تواس سے پاکستانی دہشتگردوں پربھی اثرات پڑیں گے،اگر ایسا ہوا تو پھر یہ ممکن ہو جائے گا کہ یہ جنگجوں پاکستان میں اچانک ظاہر ہو کر نگر ہار سے لے کر فاٹا تک اپنی چھوٹی خلافت قائم کر سکتے ہیں، جیسا کہ داعش پہلے ہی عراق اور شام کی سرحدوں پر اپنی خلافت قائم  کر چکی ہے۔

جنوب مشرق کی  طرف افغانستان میں اس کا پھیلاؤ نظر آتا ہے،تاہم تاجکستان کی خصوصی فورسز کے سربراہ کرنل گل موراد خالیموف پہلے ہی حکومت کے خلاف بغاوت کر چکے ہیں ، جو اس بات کی غمازی ہے کہ وہ دہشتگردی کی کارروائیوں کے لئے انتہائی اہم خفیہ معلومات حاصل کر چکے ہیں، جو مستقبل قریب میں تاجکستان میں دیکھی جا سکیں گی،مثال کے طور پر جس طریقے سے حکومت مخالف دہشتگردی کی کارروائیوں کے لئے مرحوم سابق نائب وزیر دفاع عبدالحلیم نظروزودا نے ماضی میں ریاست میں عدم استحکام پیدا کرنے کی کوشش کی،افغانستان میں داعش کی بڑھوتری کرنل گل موراد خالیموف کے علم میں ہے،اور وہ شائد اس سے ہر ممکن فائدہ اٹھاتے ہوئے ، گورنو بدخشاں کے خود مختار علاقے میں اپنے پاؤں جمانے کے ساتھ خود کو مضبوط کرنے کی کوشش کرے گا،اگر واقعی اسی طریقے سے ہوتا ہے تو کرغزستا ن کے جنوبی حصے میں آنے والے عام انتخابات سے قبل ہی رنگین انقلاب کی  رہ ہموار ہوجائے گی،(اور امریکہ بھی کرغزستان کی جانب سے باہمی تعاون کے معاہدے کو کالعدم کرنے کا بدلہ لے گا،اور وہ ان عوامل کو ہر ممکن طور پر سہولت پہنچانے کی کوشش کرے گا)تو اس سے ممکنہ طور پر وسطی ایشیا کے چار طرف پامیر اور ہندوکش پہاڑی سلسلوں میں داعش کی وسطی ایشیائی خلافت کو پنپنے کا موقع ملے گا اور پاکستان کا کچھ جنوبی حصے بھی اس کی زد میں آسکتا ہے جو کہ انتہائی ناخوشگوار ہوگا۔

پاکستان کوجغرافیائی و معاشی منزل مقصود کی پٹری سے ہٹانے کے لیے آخری تباہ کن کوشش رنگین انقلاب کی ہوسکتی ہے ۔اب اس مرحلہ پر یہ پیشین گوئی کرنا ممکن نہیں کہ آنے والے رنگین انقلاب کاحملہ کیسا ہوگا، لیکن انقلاب کی نئی لہر کے پیش نظر محسوس ہوتا ہے کہ جسیے پہلے سیاسی تکنکیوں  کے ذریعے کوشش کی گئی اب کی بار انسداد بد عنوانی کا نعرہ لگاکر سول سوسائٹی کو ہر ممکن طور پر اس کا حصہ بنانے کی کوشش کی جائے گی، اور یہ صورتحال مارشل لا لگانے والے رہمناوں کو سماجی ڈھانچہ کو ازسرنو ترتیب دینے کا موقع فراہم کرسکتی ہے، اور وہ اس کو مزید کارگر کرنے کے لیے سخت ہتھکنڈے استعمال کرتے ہوئے اس کے منصوبہ سازوں کو باہم فائدہ پہنچائیں گے،اور واضح طور پر سیاسی جماعتوں کے چند معروف رہنماؤں کو انفرادی طور پر زیر عتاب لایا جا ئے گا،،،

نتیجہ خیز اختتامی خیالات:

اکیسویں صدی کی تشکیل میں بین البراعظمی معاشی گنجائش کو مکمل کرنے کے لئے یوریشین توسیع کا بنیادی نظریہ بھی شامل ہے،یورپ نے غلط طور پرامریکی دباؤ کے پیش نظرموجودہ نظام میں یہ قبول کر لیا ہے کہ ان کا معاشی مستقبل ٹرانس یوریشین سمت کی بجائے ٹرانس اٹلانٹک سمت سے جڑا ہوا ہے،اسی وجہ سے براعظم کی باقی رہ جانے والی معاشی طاقتوں یوریشین یونین ، ایران ، سارک اور چین نے خود کو ایک دوسرے کے ساتھ بنیادی ڈھانچے سے جوڑتے ہوئے پاکستان کی جغرافیائی حکمت عملی سے فائدہ اٹھانے کی سعی میں ہیں،

پاکستان کی انتہائی اہمیت کے پیش نظراس کی قیادت کے ساتھ سیاسی اعتماد ضروری ہے تاکہ پاکستان اور بھارت کے درمیان تناؤ کو کم کیا جائے، ایسی صورت میں ماسکو کو اسلام آباد پہنچنے کے لئے جرات مندانہ اقدامات اٹھانے کے علاوہ اس کے ساتھ اپنی شراکت داری کی حمایت بھی کرنی ہو گی،جیسا کہ گزشتہ سال سے دونوں کے درمیان ارتقائی تعلق یہ ظاہر کرتا ہے کہ جیسے یہ قدرتی شراکت دار ہوں ، اور اس مضوط ہوتی شراکت داری نے امریکہ کی جغرافیائی سیاست میں حسد پیدا کر دیا ہے،جو کہ پاکستان کو یوریشین یونین، سارک، ایران اور چین کو ایک دوسرے کے قریب لانے کے کردار میں ہر ممکن رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کرہا ہے ، اس لیے وہ پاکستان میں علیحدگی پسند تحریک ، دہشتگردی اور رنگین انقلاب پیدا کرنے کے لیے فضا ہموار کررہا ہے، اگر ان منڈلاتےخطرات کا ادراک کرتے ہوئے روس ، چین اور ایران سہ فریقی کوششوں سے امریکہ کے ان ناپاک عزائم کو شکست دے دیں تو وہ دن دور نہیں کہ پاکستان معاشی طور پر ان سب کے علاوہ سارک کے لئے بھی ایک سنگم کی حیثیت اختیار کر لے گا، جس سے تمام خط جاتی طاقتیں ایک دوسرے سے جڑ کر کثیر مرکزی دنیا کے نئے مستقبل کی بنیاد رکھیں گی۔ 

نوٹ: یہ آرٹیکل برکس اور ایس سی او کے دوہزار پندرہ میں روس (Ufa) کے اجلاس کے دوارن طیب بلوچ سے کی گئی طویل گفتگو سے متاثر ہوکر لکھا گیا۔