بھارتی انتخابات میں ہندتوا کی فتح کے خطے پر اثرات

بھارتی انتخابات میں ہندتوا کی فتح کے خطے پر اثرات
29.05.2019
بی جے پی کی سربراہی میں ہندتوا وادی قوتیں بھارت کے تاریخی وتمدنی کثیر ثقافتی وجود اور اس کے سیکولر تشخص کو ختم کرکے ہندو فسطائی راشٹر کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔

بھارت کے لوک سبھا کے انتخابات میں ایک مرتبہ پھر ہندتواوادی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے بھاری اکثریت سے میدان مار لیا ہے۔ مودی سرکار نے ہندتوا کا کارڈ استعمال کرتے ہوئے انتخابی مہم چلائی تھی کیونکہ بی جے پی کا منشور ہی ہندو راشٹر کا قیام ہے۔ دراصل بی جے پی ہندو نظریاتی تنظیم آر ایس ایس کی سیاسی اساس ہے۔ خود نریندرا مودی اور بی جے پی کے صدر امت شاہ آر ایس ایس کے ذریعے بی جے پی کا حصہ بنے۔ گزشتہ پانچ سال کے دوران حکومت میں بی جے پی نے بھارت میں ہندو انتہا پسندی کو حد درجہ فروغ دیا۔ بھارت کی تاریخ میں اقلیتوں پر کبھی اتنے مظالم نہیں ڈھائے گئے جتنے بی جے پی کی گزشتہ حکومت کی انتہا پسند پالیسیوں کے نتیجے میں ہند توا وادی کی قوتوں نے ڈھائے اور اس ہندتوا نظریات نے جنوبی ایشیا کے خطے کو بھی عدم استحکام کا شکار کردیا ہے۔

اس مضمون میں ہندتوا کے بھارت کے اندر اور خطے پر اس کے اثرات کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا ہے۔

بھارت کے سیکولر تشخص کا خاتمہ

مودی سرکار کی انتہا پسند پالیسیوں کی بدولت بھارت میں سیکولر قوتوں کو انتہائی نقصان پہنچا۔ بھارت کے کثیر قومی اور کثیر مذہبی تشخص کی وجہ سے بھارت کا آئین سیکولرازم کی ضمانت دیتا ہے تاہم بی جے پی سرکار کی انتہا پسندی کے باعث اب سیکولرزم کا نام لینا بھی بھارت میں گناہ سمجھا جاتا ہے۔ہمیں یاد پڑتا ہے کہ کچھ عرصہ پہلے لے جب نیپال نے اپنا نیا آئین مرتب کیا تو اس میں نیپال کو ہندو ریاست کی بجائے سیکولر ریاست کا درجہ دیا گیا لیکن سرکار کو یہ ناگوار گزرا اور انہوں نے بہتیرا دباؤ ڈالا کہ وہ آئینی ترمیم کے ذریعے نیپال خود کو ہندو ریاست قرار دے اس وجہ سے تقریباً ایک سال تک ک بھارت نے نے نیپال کی سرحد کو کو بند کیے رکھا نیپال کال اپنی روزمرہ کی ضروریات کے لئے لیے بھارت پر انحصار کرتا ہے ہے اور بھارت نے بلیک میلنگ کے ذریعے نکال پر دباؤ ڈالا۔

یہاں یہ بات عیاں ہوتی ہے ہے کہ بی جے پی جو نیپال کا سیکولر تشخص برداشت نہیں کر سکتی وہ کس طریقے سے سے  اپنے بھارت کو سیکولر ریاست مانتی، آئینی ضمانت کے باوجود بی جے پی نے ایسی انتہا پسند پالیسیاں متعارف کرائی جس سے بھارت کا سیکولر ریاست کا تشخص ختم ہو کر رہ گیا۔حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ آپ سیکولرزم کا نام لینا بھی بھارت میں گناہ سمجھا جاتا ہے ہے جبکہ کہ بی جے پی کی سربراہی میں ہندتواوادی قوتیں ہندو شدت پسندی کو فروغ دیتے ہوئے یے ہندوراشٹر  کے قیام کی طرف گامزن ہیں۔

ایسے حالات میں اب بھارتی لوک سبھا کے انتخابات میں ہندو انتہا پسند قوتوں کی واضح اکثریت سے بھارت میں بڑی تعداد میں رہنے والی اقلیتوں میں خوف و ہراس کی فضا پیدا ہوگئی ہے اگرچہ فتح کے بعد مودی نے اقلیتوں میں پائے جانے والے عدم تحفظ کو بھانپتے ہوئے انہیں یقین تو دلایا ہے کہ ان کے تمام حقوق کا ہر ممکن تحفظ کیا جائے گا لیکن اس کی گزشتہ پالیسیوں کو سامنے رکھتے ہوئے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کس طریقے سے اب مزید پانچ سالوں میں اقلیتوں پر ظلم و ستم تم کے نئے باب رقم کیے جائیں گے۔ مودی خود ہندوانتہا پسند فاشسٹ نظریات کے حامل ہیں اور اس کی بڑی مثال گجرات میں مسلمانوں کے خلاف کھیلی گئی خون کی ہولی میں ان کے رنگے ہوئے ہاتھ ہیں۔

ہندو آبادی کے بعد بھارت میں دنیا کی دوسری بڑی آبادی دی مسلمانوں کی ہے لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے ہے کہ بی جے پی کے دور حکومت میں سب سے زیادہ ظلم و ستم بھی مسلمانوں پر ڈھائے گئے۔بی جے پی کے مرکزی قیادت متعدد مواقع پر بیانگ دہل مسلمانوں کو شیطان کہہ چکی ہے، ان کے خلاف امتیازی قانون سازی اور گائے کے ذبیحہ پر پابندی کی وجہ سے آئے روز مسلمانوں کو انتہا پسندوں کی جانب سے تشدد اور قتل جیسے خطرات کا سامناہے اس کے علاوہ صرف مسلمان ہی زیر عتاب نہیں بلکہ سکھ برادری ، ذات کے نچلی دلت اور اور عیسائیوں کو بھی ہندو گیری لہر نے خطرات سے دوچار کررکھا ہے۔ گزشتہ فتح کےدور میں ہندو توا کے فروغ کی وجہ سے بی جے پی نے اپنا ہندو ووٹ بینک مضبوط کیا ہے جس سے ملک کی سیکولر جماعتوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے ہے بی جے پی کی ان پالیسیوں کی وجہ سے اگے 2019 کا الیکشن وہ دوبارہ بھاری اکثریت سے جیتنے میں کامیاب ہوئی بھارت کی تاریخ میں یہ پہلی لوک سبھا ہو گئی جس میں اقلیتوں کی نمائندگی انتہائی کام ہے۔

ہندو فسطائیت کا راج

دنیا میں یہ ریت ہے کہ کوئی بھی فسطائی قوم یا ملک خود کو فسطائی نہیں کہتا بالکل اسی طریقے سے جیسے کوئی آمر خود کو آمر کہلوانا پسند نہیں کرتا۔ بالکل اسی طریقے سے مودی بظاہر تو خود کو بھارت کا چوکیدار اور اقلیتوں کا رکھوالا کہتا ہے لیکن حقیقت میں میں وہ اقلیتوں کا دشمن اور ہندو اکثریت کا محافظ ہے۔اگر ایک طائرانہ نظر اس کے گزشتہ پانچ سالوں کی سرکار پر ڈالی جائے تو تو واضح ہوتا ہے کہ اس طریقے سے سے مودی نے نے سیکولر بھارت کے تشخص کو ختم کرکے کے ہندو فسطائیت کو فروغ دیا۔

مودی سرکار اور ان کے وزراءبالکل ہٹلر کی مانند ہیں اپنی پارٹی کے منشور اور ملک کے دستور اور جمہوریت سے ان کا دور دور تک کوئی واسطہ نہیں۔ وہ ہٹلر کی طرح ملک میں بسنے والی اقلیتوں سے سلوک کرتے ہیں ابھی ان کے وزراء بھارت کی سب سے بڑی اقلیت مسلمانوں کو شیطان کہتے ہیں ہیں تو کبھی مسلمانوں کی مذہبی کتاب قرآن مجید پر پابندی لگانے کا مشورہ دیتے ہیں۔ جس طرح ہٹلر صرف جرمن کو اعلیٰ قوم  سمجھتا تھا اسی طریقے سے سے مودی سرکار ہندو کو اعلی سمجھتے ہوئے یے اقلیتوں پر اوچھے، غیر اخلاقی اور غیر انسانی حربے استعمال کر رہی ہے۔

مودی سرکار کی مطلق العنانیت، عدم رواداری، انتہا پسندی، اور دیگر مذاھب و قوموں کے خلاف تعصب فاشسٹ مزاج کی غمازی کرتا ہے۔ دراصل آر ایس ایس نے مودی کو فسطائیت کی جو تربیت دی تھی وہ اس کے دور حکمرانی میں کھل کر سامنے آئی ہے۔ بی جے پی کے زیر سایہ بڑھوتری پاتے اس اس فسطائی راج نے ملک میں جنگل کا راج پیدا کر دیا ہے خونخوار درندوں میں بھی شاید کوئی اخلاقیات ہوں لیکن دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں اخلاقیات کا جنازہ اٹھ چکاہے۔

، مودی سرکار کی تعصبانہ پالیسیوں کے باعث اس ریاست کے آزاد اور خود مختار ادارے بھی بھی اقلیتوں کے خلاف متعصب ہو گئے ہیں پولیس اقلیتوں کو تحفظ دینے کی بجائے ہے انتہا پسندوں و کا ساتھ دیتی ہے ہے، اقلیتوں پر ہونے والے ظلم و ستم کی ایف آئی آر تک درج نہیں ہوتی،عدلیہ کی آزادی  بھی سلب ہو چکی ہے عدلیہ کو جرات نہیں رہی کہ وہ ہندو انتہا پسندوں کے ظلم و ستم کے خلاف دائر مقدمات کا آزادی سے فیصلہ کر سکیں۔اس قسم کے متعدد د عوامل بی جے پی سرکار کے فسطائی راج کی عکاسی کے لیے کافی ہیں۔

ہندو راشٹر کا قیام

میگھالیہ ہائی کورٹ کے ایک جج ایس آر سین کے ہندو راشٹر کے قیام سے متعلق حالیہ بیانات نے بھارت کو ہندو راشٹر بنانے کی بحث کو تقویت دی ہے۔ موصوف نے ایک مقدمے میں ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ برصغیر کی تقسیم کے وقت وقت انڈین لیڈروں نے بہت بڑی غلطی کی۔ انہیں چاہئے تھا کہ انیس سو سنتالیس میں ہی بھارت کو ہندو راشٹر بنا دیتے۔ اگر تقسیم ہند کے وقت پاکستان کو ایک اسلامی ریاست قرار دیا گیا تو بھارت کو ہندو راشٹر کیوں نہیں، بھارت کے سیکولر ریاست ہونے کی وجہ سے بہت سے مذہبی مسائل نے جنم لیا۔

بھارتی جج ایس آر سین سنگھ پریوار، آر ایس ایس اور اس طرح کی دیگر ہندتواوادی قوتوں سے متاثر ہو کر ایسے ریمارکس دیے کیونکہ یہی قوتیں ہندو راشٹر کے قیام کے لیے سرگرم ہیں۔ اس لیے باقاعدہ ایک منصوبہ بندی کے تحت بی جے پی کے زیر سایہ ہندو فسطائیت کو فروغ دیکر چور راستوں کے ذریعے ہندو راشٹر کو داخل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ کیونکہ عملی طور پر بھارتی آئین اس میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے اور پھر بھارتی جمہوریت بھی اس میں حائل ہے اس لیے تو بی جے پی کا سب سے بڑا مقصد ہی بھارتی سیکولر آئین کا حلیہ بگاڑنا ہے تاکہ وہ ہندو فسطائی راشٹر کے قیام کو عملی جامہ پہنایا جاسکے۔

تاریخی، تہذیبی، تمدنی، قومی اور مذہبی طور پر بھارت ہمیشہ کثیر الثقافتی اور تکثیری خطہ رہا ہے، متعدد مزاہب کا جنم  بھی یہی سے ہوا ہے ۔ ہندومت، اسلام ، بدھ مت ، جین مت، سکھ مت سمیت متعدد چھوٹے مزاہب کے بسنے والے یہاں رہتے ہیں۔ دراصل ہندومت بظاہر مذہب امن و شانتی کا مذہب ہے اور ہندتوا کا ہندومت سے کوئی تعلق نہیں ۔ یہ شدت پسند قوم پرست نظریہ وی ڈی سرواکر نے 1923 میں اپنے کتابچے میں متعارف کروایا۔ اس نے ہندو کو ایک منفرد نسل اور قوم کا درجہ دیا۔ 1925میں کے ایس ہیدگوار کی جانب سے راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس ) کے قیام کے پیچھے یہ نظریہ ہی کارفرما تھا اور یہ یورپ میں 1920 سے 1930 تک چلنے والی  فسطائی تحریکوں سے بہت متاثر رہی۔متعدد مرتبہ پابندیوں کے باوجود یہ تحریک زور پکڑتی رہی اور بالآخر 1980 میں بی جے پی نے اس کی کوکھ سے جنم لیا اور انتہا پسندی و ہندتوا کے نظریات کو فروغ دیکر بھارت کی بڑی پارٹی بن گئی۔

2014 میں آر ایس ایس کے کارکن مودی کو اس پارٹی نے وزیراعظم بنا یا اور اب 2019 کے انتخابات میں بھی مودی نے ہندتوا کارڈ کھیلتے ہوئے مکمل طور پر کیلن سویپ کیا۔ یہ بھارت کی واحد لوگ سبھاہے، جس میں مسلمانوں اوردیگر اقلیتوں کی تعداد انتہائی کم ہے آبادی کے لحاظ سے سے جہاں مسلمانوں کی 76 نشستیں بنتی تھی وہاں اب صرف 27 مسلمان اس لوگ سبھا میں پہنچ پائے ہیں۔اقلیتوں کی کل نشستوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ اب اب مودی سرکار کو لوک سبھا میں من مانی کرنے کی کھلی چھوٹ ہوگی اور اس کی ہر ممکن کوشش ہوگی کہ ہندو راشٹر کے قیام کے ادھورے خواب کو پورا کیا جائے کیونکہ متعدد مواقع پر مودی اور اس کی جماعت کی قیادت نے ہندتواکے نظریاتی بانی وی ڈی سرواکر کے نظریات کے پریچار کرتے نظرآتے ہیں۔

خطے پر اثرات

سارک بامقابلہ بے آف بنگال اقدامات

بی جے پی کی قیادت پہلے ہی  جنوبی ایشیا کو اپنی خود غرض اور دوہری پالیسیوں کی وجہ سے عدم استحکام کا شکار کر چکی ہے۔ پاکستان کی سربراہی میں جنوبی ایشیا کے ممالک کی نمائندہ تنظیم سارک کی کانفرنس سے بھارتی بائیکاٹ نے اس خطےکو مزید پسماندگی میں دھکیل دیا ہے۔خطہ کی یہ واحد تنظیم تھی جس میں تمام خطوں کے ممالک مل بیٹھ کر نہ صرف اپنے تنازعات حل کرسکتے تھے بلکہ کہ خطہ جاتی معیشت کو بھی ترقی دے کر جنوبی ایشیا کی پسماندہ اور غریب عوام کی فلاح و بہبود بھی کر سکتے تھے تاہم بھارتی بائیکاٹ کی وجہ سے دو سال سے سارک کا کوئی اجلاس نہ ہوسکا۔

سارک کے علاوہ مودی سرکار نے خطے میں ایسی پالیسیوں کو پروان چڑھایا جس سے جنوبی ایشیا کے ممالک کے درمیان ان فاصلہ کم ہونے کی بجائے مزید بڑھا۔بھارت جو خود کو جنوبی ایشیا کا چودھری مانتا ہے اس نے واقعی اپنی چودھراہٹ قائم کرنے کے لئے اس خطے کے دیگر ممالک کو ایک دوسرے سے یوں لڑایا کہ اب اب غربت اور پسماندگی اس خطے کی عوام کا مقدر بن چکی ہے۔ تاہم اپنے خطاب جاتی مفاد کو عزیز رکھنے کے لیے اس نے نے سارک کا متبادل جسے بے آف بنگال اقدامات نعت یعنی بے آف بنگال ان شیٹیوز بھی متعارف کرائے جس میں اس کے روایتی دشمن پاکستان کے علاوہ دیگر تمام سارک ممالک کو شامل کیا گیا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ساتھ جنوب مشرقی ایشیا ئی ممالک تھائی لینڈ وغیرہ بھی اس کا حصہ ہیں۔

امریکہ بامقابلہ چین

بلا شک و شبہ بھارت اور چین دنیا کی آبادی کے حوالے سے دو بڑی منڈیاں اور ایشیا کی کی دو بڑی معیشتیں ہیں۔ چاہیے تو یہ تھا کہ دونوں ممالک خطہ جاتی ترجیحات کو مقدم جانتے ہوئے آئیے ایک دوسرے کے ساتھ باہمی تعلقات بڑھاتے دے دے تاکہ کہ خطے پر اس کے مثبت اثرات مرتب ہوسکیں لیکن افسوس روس چین کی خواہش کے باوجود بھارت نہ صرف اس سے مکمل انکاری ہے بلکہ اس نے خود کو خطے میں امریکی پراکسی کے طور پر پر چین کے خلاف استعمالمال ہونے میں ہرگز عار محسوس نہیں کی۔

 

دراصل مغربی سامراجی قوتوں نے مودی سرکار کو چین کے مقابل لیکر آنے کا ایسا خواب دکھایا ہے کہ اب بھارت چین سے سے پنگا لینے سے باز نہیں آرہا۔ بھارت امریکہ اور چین کی معاشی جنگ میں سامراجی قوتوں کا فریق بن کر سامنے ابھرا ہے۔ وہ جنوبی ایشیا کے خطے میں چین کے سلک روڈ منصوبوں و میں روڑے اٹکانے کی کوشش کر رہا ہے۔ بنگلہ دیش، سری لنکا اور نیپال میں چین کا اثرورسوخ کم کرنے کی ہر ممکن کوشش کر رہا ہے۔ حتیٰ کہ ان ممالک میں میں چین کو دی جانے والی بندرگاہوں پر بھی بھارت تنازعات پیدا کرتے ہوئے خود ان کی تحویل کے لیے سرگرم ہے۔ یہی نہیں بلکہ مودی سرکار نے بھارت کو جنوبی چین سمندری پھڈے میں بھی دھکیل دیا ہے اوریوں امریکہ اور اور جاپان کے کہنے پر پر بھارت بے آف بنگال میں میں چین کی سمندری تجارت کو بھی روکنے کے لیے مکمل طور پر پرعزم ہے۔

بھارت کی سامراج نواز قوتوں کے اس گندے کھیل کو بھانپتے ہوئے ہوئے چین نے نے متبادل تجارتی راستے کے لیے لیے پاکستان ان سے بھرپور فائدہ اٹھانے نے کی ٹھانی تو بھارت کو یہ بھی ناگوار گزرا اور اس نے روڑے اٹکانے کےلیے پاکستان میں میں اپنی پراکسی جنگ کو کو تیز کردیا۔ پاکستان میں علیحدگی پسند تنظیموں، دہشتگردجماعتوں اور اور قوم پرستوں کو بھارت نے چین کے خلاف اکسانا شروع کردیاہے تاکہ چین کو پاکستان کے ذریعے ملنے والا متبادل تجارتی راستہ بھی میسر نہ آسکے۔

پاکستان کی ناطقہ بندی

مودی سرکار امریکہ کے تعاون سے اپنے روایتی حریف پاکستان کی ہر ممکن ناطقہ بندی کے لیے کوشاں ہے۔ یوں تو بی جے پی بڑے عرصے سے سے اکھنڈ بھارت کے عزم کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے لیے سرگرم تھی جیسا کہ کہ بی جے پی کے صدر امت شاہ نے بھارت کی تاجروں سے گفتگو میں کہا تھا کہ 2025 میں پاکستان کا وجود تک نہیں ہوگا اور پاکستان کے تمام علاقے بھارت میں ضم ہوجائیں گے۔ اس اکھنڈ بھارت کا خواب سجائے مودی سرکار ہر جتن کررہی ہے کہ کسی طریقے سے پاکستان کے وجود کو ختم کرتے ہوئے اس پر بھارتی قبضہ ہوجائے۔

اس کے لیے مودی سرکار کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہے دوسری طرف امریکہ بہادر بھی چین کی وجہ سے پاکستان کو سبق سکھانا چاہتا ہے اس لیے پاکستان کے خلاف یہ دونوں متحد ہوکر ہرممکن کوشش کررہے ہیں۔ امریکہ کی افغانستان میں موجودگی بھی اس گندے کھیل میں بہت کارگر ثابت ہورہی ہے۔ افغانستان میں بھارتی قونصلیٹ خانے پاکستان میں ہابرئیڈ جنگ کی ترویج کا سب سے بڑا ذریعہ بن چکے ہیں جبکہ علیحدگی پسند اور دہشت گردوں کو افغانستان سے تربیت دیکر بلوچستان اور خیبرپختونخوا اور اس سے منسلک ایجنسیوں میں دہشتگردی و تخریبی کاری کے لیے  بھیجا جاتا ہے جہاں سے وہ را اور افغان این ڈی ایس کی مہیا کردہ معلومات کے مطابق پورے پاکستان میں اہم اہداف پر کارروائیاں کرتے ہیں۔

غیر روائیتی جنگی حربوں اور دہشتگردی کی کارروائیوں کے علاوہ بھارت آۓ روز سرحد کی خلاف ورزی کرکے پاکستان کو روایتی جنگ کی بھی دھمکیاں دیتا رہتا ہے۔ حال ہی میں پاکستان کے اعصاب چیک کرنے کے لیے مودی سرکار کے جنگی طیاروں نے پاکستانی حدود کی خلاف ورزی کو تو ان کو جوابی کارروائی سے ایسی ہزیمت اٹھانی پڑی کہ ان کو اب تک جگ ہنسائی کا سامنا ہے۔ جنگ شروع ہونے سے پہلے ہی پاکستان کی جوابی کارروائی نے ان کو ایسی مات دی کہ وہ اب حملہ سے پہلے سو دفعہ سوچیں گے۔ لیکن مودی سرکار کے پاکستان مخالف عزائم اس سے کم نہیں بلکہ مزید بڑھے ہیں ، عالمی سطح سے لیکر پاکستان کے اندورنی معاملات تک بھارت کی دراندازی روز بروز بڑھتی جارہی ہے۔ مودی سرکار کی دوبارہ جیت میں پاکستان مخالف بیانیہ کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ مودی سرکار کی جانب سے آئین میں ترمیم کر کے دفعہ پینتیس اے ختم کرکے ریاست کشمیر کو بھارت میں شامل کرنے سے حالات مزید خراب ہونگے جو بڑی جنگ کا پیش خیمہ ہوسکتے ہیں۔

یک قطبیت بامقابلہ کثیر قطبیت

تاریخی طور پر کثیر ثقافتی ہونے کے ساتھ ساتھ بھارت کثیر قطبی دنیا کا بھی حصہ ہے جیسا کہ یہ برکس ممالک اور شنگھائی تعاون تنظیم کا ممبر ہے اور ساتھ ہی بھارت روس کی یوریشین اقتصادی یونین کے ساتھ منسلک ہونے کے لیے باقاعدہ درخواست دے چکا ہے لیکن مودی سرکار کی چند پالیسیاں ایسی بھی ہیں جو دم توڑتی یک  قطبیت دنیا کو آکسیجن فراہم کررہی ہیں ، ایسی پالیسیوں کی بدولت کثیر قطبی دنیا کے بھارت پر تحفظات بڑھ گئے ہیں۔

  مودی سرکار جو پہلے سے ہی بھارت کی کثیریت کو ختم کرکے ہندو راشٹر بنا نے پر تلی ہے وہ اب عالمی سطح پر  بھی یک قطبیت کی پالیسیوں کی ہمنوا ہوکر کثیر قطبیت کے لیے خطے میں مسائل بڑھارہی ہے۔ کثیر قطبی  برکس اور شنگھائی تعاون کا ممبر ہونے کے باوجود چین اور پاکستان کے خلاف اس کے اقدامات پتہ دے رہے ہیں کہ وہ کس طریقے سے خطے میں کثیر قطبیت کی تشکیل کے خلاف سامراجی ایجنڈے پر کارفرما ہے۔

صرف یہی نہیں بلکہ وہ اپنے دیرینہ دوست اور کثیر قطبیت کے خالق روس کے لیے بھی مشکالات میں اضافہ کر رہا ہے۔  بھارت روس مخالف  نیٹو کا بھی غیر ممبر اتحادی بننے کے لیے پرتول رہا ہے وہ اس کے لیے اپنے نئی اتحادی امریکہ کے اشارے کا منتظر ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ وہ اپنے دفاع کے لیے روس پر انحصار کم کرکے امریکہ اور اسرائیل سے اپنی دفاعی ضروریات پوری کرنا چاہتا ہے۔ اگرچہ وہ جدید ہوائی دفاع کے لیے روس سے ایس-400 بھی خرید رہا ہے لیکن یہ اس کی مجبوری ہے کیونکہ اسرائیل اور امریکہ کے پاس ایسا دفاعی نظام موجود نہیں تاہم اب امریکہ اور اسرائیل کے ساتھ اس کے ہتھیاروں کے معاہدے روز بروز بڑھتے جارہے ہیں۔ روس اگرچہ مودی سرکار کی ان دوہری پالیسیوں سے واقف ہے لیکن وہ کثیر قطبی دنیا کی تشکیل کے لیے آخر تک بھارت کو ساتھ لیکر چلنا چاہتا ہے۔