پیوٹن-اردگان معاہدہ: روس اورشام شمال مشرقی شام میں فوجی دستے تعینات کریں گے۔
روسی فوجی پولیس اور شام کے اہلکار شمال مشرقی شام میں تعینات کئے جائیں گےجبکہ ترکی کا آپریشن "بہار امن" محدود ایریا تک جاری رہے گا. روسی صدر اور پیوٹن ترکی صدر اردگان ایک طویل نشست کے بعد اس پر رضا مند ہوئے.
روسی صدر نے کہا کہ شام میں ترکی کی فوجی مداخلت کو ماسکو بہتر سمجھ سکتا ہے. لیکن ترکی کو اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ وہ دہشتگردوں کے ہاتھوں میں نہ کھیلے بلکہ اسے شام کی خود مختاری کو ہر صورت مقدم جاننا ہوگا. حتمی طور پر غیر قانونی خارجی دہشتگردوں سے شام کو آزاد کرنا ہوگا. اور یہ روس کا شام سے متعلق یہ اصولی موقف ہے.
روس کے شہر سوچی میں طیب اردگان اور صدر روس ولادی میر پیوٹن کے درمیان سات گھنٹے تک بند کمرے میں شام کے معاملے پر مزاکرات ہوئے.
کرد افواج کا انخلا
معاہدے کے تحت ترکی کا اصل ہدف کرد فوجی دستے ہیں. اور یہ کرد افواج ترکی کے بارڈر سے تیس کلومیٹر دور شام کے علاقے میں انخلاء کو ممکن بنائیں گے. تاہم اردگان کا فوجی آپریشن ایک مخصوص ایریا تل آبیاد اور راس العین تک جاری رہے گا جو کہ شام کے علاقے میں بتیس کلو میٹر کے اندر ہوگا.
شامی فوج کی بارڈر پر تعیناتی
شام کے دوسرے بارڈر علاقے کوبانی سے تل آبیاد اور راس العین سے عراقی بارڈر تک شامی فوج اور بارڈر گارڈز تعینات ہونگے جن کو روس کی فوجی پولیس کی مکمل معاونت حاصل ہوگی.
مشترکہ روس ترک فوجی گشت
ایک ہی وقت میں وہ علاقے جہاں پر ترکی فوج کے آپریشن سے متاثر نہیں ہوئے وہاں پر روسی اور ترکی فوجی گشت شروع کیا جائے گا جوکہ شامی علاقے کے دس کلومیٹر اندر تک ہوگا.
گرفتار داعش کے دہشتگردوں کے فرار کی روک تھام
شمال مشرقی شام میں جہاں داعش کے دہشتگردوں کو جیل میں بند کیا گیا ہے ان پر خصوصی توجہ دی جائے گی. صدر روس نے ترکی کو باور کرایا کہ اس آپریشن کی آڑ میں داعش کے دہشتگردوں کو فرار کرنے کی ہرگز اجازت نہیں دی جائے گی. داعشی دہشتگردوں نے پورے شام میں بدامنی پھیلائی اب ترکی کے فوجی آپریشن کی آڑ میں ان کو فرار کرنے یا ڈھیل دینے کی اجازت نہیں دی جاسکتی. ولادی میر پیوٹن نے ترک افواج پر زور دیا ہے کہ وہ اس آپریشن کی آڑ میں کرد فوجی دستوں کی جانب سے قید کئے گئے داعشی دہشتگردوں کو چھوڑنے کی کوشش نہ کرے اگر ترکی نے ایسا کیا تو سنگین نتائج بگھتنے ہونگے. روس ترکی کو ایسا کرنے کی ہرگز اجازت نہیں دے گا.
1998 کے عدانہ معاہدے کو نئی روح دینا
ترکی اور روس نے 1998 کے عدانہ معاہدے کی اہمیت کو پھر سے اجاگر کرتے ہوئے شام اور ترکی کے درمیان امن معاہدے کو جلا بخشی ہے. اس معاہدے کی روح سے ترکی بارڈر کے پار شام کے علاقے میں فوجی آپریشن کر سکتا ہے. جبکہ دمشق نے وعدہ کیا ہے کہ کردستان ورکر پارٹی (پی کے کے) کے ممبران کی پشت پناہی نہیں کرے گا کیونکہ ترکی نے اس پارٹی کو دہشتگرد تنظیم قرار دیا ہوا ہے جبکہ شام کے حالیہ تنازعے کی وجہ سے دونوں ریاستوں کے درمیان ڈپلومیٹک تعلقات خراب ہوئے ہیں. لیکن اس کے باوجود یہ معاہدہ ختم نہیں ہوا تھا. لیکن اب ماسکو نے جدید حقیقتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اس معاہدے کو نئی روح دی ہے.
گزشتہ کچھ دہائیوں سے پی کے کے ترکی کے اندر کم درجے کی شورش میں ملوث ہے. کیونکہ اس کا مقصد آزاد کرد ریاست کا قیام ہے. انقرہ کا موقف ہے کہ سرحد پار شام میں پی کے کے بہت مظبوط ہے. اور اسے شام کی کہیں نہ کہیں سرپرستی بھی حاصل رہی ہے. شام میں کرد افواج حملوں میں پی کے کے کا جھنڈا بھی استعمال کرتی رہی ہے.
شام سے متعلق امریکہ کا موقف مبہم اور متنازعہ ہے
روس اور ترکی ایک جیسا سوچنے کی وجہ سے معاہدہ کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں تاہم انقرہ اور واشنگٹن نے بھی معاہدہ کرنے کی کوشش کی جسکی وجہ سے امریکہ سیز فائر پر رضا مند ہوا تھا. روس اور ترکی کے اعلی حکام سوچی میں معاہدے کے دوران امریکی موقف کو بھی زیر بحث لاۓ۔ اور اس حوالے سے روس کے وزیر خارجہ نے فریقین کو امریکی موقف سے آگاہ کیا.
روس کے وزیر خارجہ نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے امریکہ اور اس کے موقف کو عملی طور پر نہیں دیکھا کیونکہ امریکہ کا موقف مستحکم نہیں اور اس میں حد درجہ تضاد موجود ہے اور بیشک امریکہ کی سربراہی میں بنایا گیا اتحاد کی شام میں موجودگی غیر قانونی ہے اور ا س حوالے سے سب بخوبی واقف ہیں.
دمشق ہمارے موقف سے متفق ہے
اردگان سے ملاقات کے بعد صدر روس نے شام کے صدر بشار الاسد سے اس معاہدے سے متعلق تفصیل سے گفتگو کی. اسد نے روس کو اس معاہدے کیلئے اپنے مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی. شام کا کہنا تھا کہ شامی سرحدی دستے پہلے ہی سے روس کی فوجی پولیس کیساتھ ملکر کام کر رہی ہے.
9 اکتوبر کو ترکی کی فوج نے خطے میں گھس آئے اور شام مخالف حزاب اختلاف کیساتھ اتحاد کر لیا. ترکی فوج کا آپریشن اگرچہ کردوں کے خلاف تھا لیکن انہوں نے شام کی حکومت مخالف فریقین کو حمایت کیلئے اپنے ساتھ ملایا. انقرہ نے اس مشن کو بہار امن کا نام دیا اور یہ آپریشن صدر ٹرمپ کے فوجی انخلا کے اعلان کے دو دن بعد کیا گیا.
گزشتہ ہفتے ترکی اور امریکہ خطے میں پانچ دن سیز فائر پر رضا مند ہوئے جس کی. مدت منگل کو ختم ہو گئے. اس سیز فائر کی وجہ سے کرد دستوں کو سیف زون کی طرف مارچ کرنے میں معاونت فراہم ہوئی اور یہ وہ سیف زون ہیں جسے ترکی نے خود تسلیم کیا. اردگان کا کہنا تھا کہ اگر امریکہ اپنے معاہدے پر پابند نہیں رہا تو ترکی پھر سے جارحیت کیلئے مجبور ہوگا.
ماسکو نے ترکی سے متعدد مرتبہ شام میں فوجی سرگرمیوں سے احتراز برتنے پر زور دیا. اور ترکی کو خبردار کیا کہ ا س کہ کوئی بھی سرگرمی شام کی سیاسی بحالی امن کی کاوشوں کو نقصان پہنچا سکتی ہے.