وزیراعظم سے کچھ نہیں ہوتا ماسوائے بحران میں مہرے تبدیل کرنے کے۔ چیف جسٹس آف پاکستان
سپریم کورٹ نے کورونا وائرس از خود نوٹس کیس میں وفاقی حکومت اور وزیراعظم کو آڑے ہاتھوں لیا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ وزیراعظم سے کچھ نہیں ہوتاماسواۓ اس کے کہ کوئی بحران آۓ تو وہ صرف مہرے تبدیل کر دیتے ہیں۔ کرپٹ اور جرائم میں ملوث مشیر اور ایڈوائزر لگادیے۔ مشیروں اور وزراء کی فوج در فوج ہے لیکن کام کچھ بھی نہیں۔ جو کام دس لوگوں سے ہو سکتا ہے اس کے لیے انچاس لوگ رکھ لیے گئے۔ وزیراعظم کے پاس آخری موقع تھا جو وہ ضائع کررہے ہیں۔ سپریم کورٹ نے پنجاب حکومت کی جانب سے بین الصوبائی مشروط سفری پابندی کا نوٹیفکیشن کالعدم قرار دیدیا.عدالت نےبین الصوبائی اور بین الاضلاعی کے لیے کرونا سرٹیفکیٹ کی پابندی کی شرط ختم کر دی.سپریم کورٹ نے حکومتی کارکردگی پر بهی عدم اطمینان کا اظہار کر دیا.
سپریم کورٹ میں کورونا وائرس پر حکومتی اقدامات سے متعلق ازخودنوٹس کیس کی سماعت ہوئی.چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزاراحمد کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے سماعت کی.وفاقی حکومت کی طرف سے اٹارنی جنرل عدالت میں پیش ہوئے ہیں، سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس پاکستان نے حکومت کی کارکردگی پر شدید اظہار برہمی کا اظہار کیا۔جسٹس گلزار احمد رنے ریمارکس دیے کہ آپ نے ابھی تک کچھ بھی نہیں کیا، وزراء اور مشیروں کی فوج در فوج ہے، مگر کام کچھ نہیں، مشیروں کو وفاقی وزراء کا درجہ دے دیا، مبینہ طور پر کرپٹ لوگوں کو مشیر رکھا گیا۔اس پر اٹارنی جنرل نے استدعا کی کہ سر آپ ایسی بات نا کریں، چیف جسٹس نے جواباً کہا کہ میں نے مبینہ طور پر ان کو کرپٹ کہا ہے۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اس وقت ظفر مرزا کیا ہے اور اس کی کیا صلاحیت ہے؟
چیف جسٹس نے ریماکس دیے ہم نے حکم دیا تھا کہ پارلیمنٹ قانون سازی کرے، پوری دنیا میں پارلیمنٹ کام کررہی ہیں، عدالت کے سابقہ حکم میں اٹھائے گئے سوالات کے جواب نہیں آئے اور ظفر مرزا نے عدالتی ہدایات پر عمل نہیں کیا۔
اٹارنی جنرل نے مؤقف اختیار کیا کہ پارلیمنٹ کے اجلاس کے بارے میں تو پارلیمنٹ ہی طے کرے گی، حکومت قانون سازی کے مراحل میں ہے اور ایسا اٹھارویں ترمیم کی وجہ سے ہو رہا ہے، اٹھارویں ترمیم میں صوبوں کو اختیار دیا گیا ہے۔
جسٹس گلزار نے مزید ریمارکس دیے کہ کابینہ کا حجم دیکھیں، 49 ارکان کی کیا ضرورت ہے؟ مشیر اور معاونین نے پوری کابینہ پر قبضہ کر رکھا ہے، اتنی کابینہ کا مطلب ہے کہ وزیراعظم کچھ جانتا ہی نہیں۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ صوبائی حکومتیں کچھ اور کررہی ہیں، مرکز کچھ اور کام کر رہا ہے، ہم آپ کے کام میں کوئی مداخلت نہیں کررہے۔جسٹس قاضی امین نے استفسار کیا کہ کہاں گیا سماجی فاصلہ؟ اس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ حکومت اس پر کام کررہی ہے، 22 کروڑ کا ملک ہے، سماجی فاصلہ فوج یا قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ذریعے ممکن نہیں۔
دورانِ سماعت چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ ظفر مرزا کی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہیں، حکومت انہیں عہدے سےہٹا کا دے.اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ اس موقع پر ظفر مرزا کو ہٹانا بڑا تباہ کن ہوگا، آدھی فلائٹ میں ان کو نا ہٹائیں، عدالت ان کا معاملہ حکومت پر چھوڑ دے۔عدالت نےبین اضلاعی سفر کے لیے کرونا سرٹیفکیٹ کی پابندی کی شرط ختم کر دی.
عدالت نےحکومت سے آج ہونے والے اعلی سطحی اجلاس کے فیصلوں کی تفصیلات طلب کر لیں.عدالت نے کہاسندھ حکومت کی کارکردگی افسوسناک ہے، سندھ بھر سے کھانا نہ ملنے کی شکایت پہنچ رہی ہیں، سپریم کورٹ نےاسلام آباد انتظامیہ اور پنجاب حکومت سے بھی کرونا سے نمٹنے اور امدادی کام کی تفصیلات طلب کر لیں کیس کی سماعت آئندہ پیر تک ملتوی