بابری مسجد کیس: بھارتی سپریم کورٹ نے مسجد کی جگہ مندر کی اجازت دے دی
بھارتی سپریم کورٹ نے بابری مسجد کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے مرکزی حکومت کو حکم دیا ہے کہ زمین کومندر کی تعمیر کے لئے ہندوﺅں کے حوالے کرے۔
بھارتی میڈیا کے مطابق چیف جسٹس رنجن گوگئی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے بابری مسجد سے متعلق فیصلہ سنا دیا۔
بھارتی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس راجن گوگوئی نے کہا کہ ایسا کوئی ثبوت نہیں کہ 1856 سے پہلے اس سر زمین پرکبھی بھی نمازادا کی گئی ہو جبکہ بابری مسجد جس ڈھانچے پرتعمیرکی گئی اسکا کوئی اسلامی پس منظر نہیں ،کیس کا فیصلہ ایمان اور یقین پرنہیں بلکہ دعوﺅں پرکیا جاسکتا ہے۔ تاریخی بیانات ہندوئوں کے اس عقیدے کی نشاندہی کرتے ہیں کہ یہ آیودھیارام کی جائے پیدائش تھی۔
بھارتی چیف جسٹس نے کہا کہ اس بات کا ثبوت موجود ہے کہ انگریزوں کے آنے سے پہلے ہندورام چبوترہ، سیتا راسوئی کی پوجا کرتے تھے، ریکارڈ میں موجود شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ متنازعہ اراضی ہندوئوں کی ملکیت تھی۔
ہندوآیودھیا کو رام کی جائے پیدائش سمجھتے ہیں، ان کے مذہبی جذبات ہیں، مسلمان اسے بابری مسجد کہتے ہیں، ہندوئوں کا یہ عقیدہ ہے کہ کہ بھگوان رام کی پیدائش یہاں ہوئی ہے۔
عدالت نے حکم دیا کہ مسجد کی تعمیرکیلئے مسلمانوں کو5 ایکڑ کی زمین متبادل کے طور پر دی جائے گی،بھارتی سپریم کورٹ نے مسلمانوں اور ہندوئوں کے درمیان بابری مسجد اور رام مندر کی زمین کا تنازع حل کرنے کے لیے ثالثی ٹیم تشکیل دی تھی۔
اس سے قبل الہ آباد ہائیکورٹ نے بابری مسجد کیس میں اپنا فیصلہ 30 ستمبر 2010 کو سنایا تھا۔ اس میں تین ججوں نے حکم دیا تھا کہ ایودھیا کی دو اعشاریہ 77 ایکڑ زمین کو تین حصوں میں تقسیم کیا جائے۔ اس میں سے ایک تہائی زمین رام للا مندر کے پاس جائے گی جس کی نمائندگی ہندو مہاسبھا کرتی ہے، ایک تہائی سنّی وقف بورڈ کو جائے جبکہ باقی کی ایک تہائی زمین نرموہی اکھاڑے کو ملے گی۔
واضح رہے کہ بابری مسجد کے حوالے مسلمانوں کا موقف ہے کہ یہ 1528ءسے موجود مذکوہ مقام پر قائم ہے جب کہ ہندوئوں کا موقف ہے کہ یہ مندر صدیوں پہلے ممکنہ طور پر راجہ وکراما دتیا نے بنایا ہوگا جسے 1526ءمیں بابر نے یا پھر17 ویں صدی میں ممکنہ طورپراورنگزیب نے گرا دیا تھا۔