مقبوضہ کشمیر: عالمی عدالت انصاف کا کردار حتمی فیصلہ کرے گا!!!!
پاکستان نے اصولی طور پر مقبوضہ کشمیر میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر عالمی عدالت میں جانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔گزشتہ روز وفاقی کابینہ کے اجلاس کی بریفنگ دیتے ہوئے وزیراعظم کی معاون خصوصی فردوس عاشق اعوان نے اور مزید برآں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے تصدیق کر دی کہ کچھ تکنیکی امور کا جائزہ لینے کے بعد بھارتی مظالم اور کشمیریوں کی نسل کشی کے خلاف ہیگ میں قائم عالمی عدالت سے رجوع کیا جائے گا۔یہ ادارہ 1945میں اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق قائم کیا گیا اورقیام کے اگلے سال ہی اس نے کام کا آغاز کر دیا۔پاکستان کو اس کیس میں کس حد تک کامیابی ہو گی یہ کہنا قبل از وقت ہو گا تاہم یہ بات واضح ہے عالمی عدالت کے فیصلوں پر عملدرآمد بھی اسی طرح کیا جاتا ہے جیسا کہ اقوام متحدہ میں عالمی طاقتوں کا رویہ رہا ہے۔ جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا سلسلہ یہاں بھی موجود ہے۔ مثال کے طور پر 2003میں میکسیکو نے اپنے 54شہریوں کے قتل کے خلاف عالمی عدالت سے رجوع کیا۔ ان افراد کو مختلف جرائم کی وجہ سے موت کی سزائیں سنائی گئی تھیں تاہم امریکی سپریم کورٹ نے فیصلہ سنا دیا کہ کہ عالمی عدالت کا فیصلہ اس وقت تک امریکہ کے لیے بائنڈنگ نہیں ہوتا جب تک امریکی کانگریس قانون پاس کر کے پابند نہ کردے کہ وہ عالمی عدالت کے فیصلے کا پابند ہے۔لہٰذا امریکی سپریم کورٹ نے عالمی عدالت انصاف کی بات نہ مانتے ہوئے ان مجرموں کو سزائے موت دے دی۔ اسی طرح 1982میں جرمنی نے امریکہ کے خلاف اپنے دوشہریوں کے لیے عالمی عدالت انصاف سے رجوع کیا لیکن امریکہ نے مجرموں تک رسائی دینے سے انکار کرتے ہوئے سزائے موت پر عملدرآمد کر دیا۔ اسی طرح اس سے قبل پاکستان نے 1998میں بھارت کی جانب سے پاکستانی طیارے کو مارگرانے کے خلاف عالمی عدالت انصاف کا دروازہ کھٹکھٹایا اس واقعہ میں پاکستان کے سولہ شہری جاں بحق ہوئے تھے۔ عالمی عدالت نے اس پر بھارت کے حق میں فیصلہ کر دیا حالانکہ ایک غیر مسلح طیارے کو نشانہ بنانا سراسر جنگی اقدام اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی تھا۔ ابھی حالیہ دنوں میں پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کو پھانسی کی سزا کے خلاف بھارت نے عالمی عدالت سے پاکستان کے خلاف رجوع کیا۔ جس پرعالمی عدالت نے اپنا استحقاق نہ ہونے کے باجود کیس سنا اور کلبھوشن یادیو تک قونصل رسائی دینے کا فیصلہ کرکے بھارت کو راضی کرنے کی کوشش کی۔ اس لحاظ سے دیکھاجائے تو عالمی عدالت انصاف کا وجود انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے میں ناکام نظر آتا ہے۔ اسی طرح خود اقوام متحدہ کا وجود اور کارکردگی سے واضح ہوتا ہے کہ یہ ادارہ محض عالمی طاقتوں کی چاپلوسی تک محدود ہو کر رہ گیا ہے۔
مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی جانب سے گزشتہ ستر سالوں سے کشمیریوں کو ان کے اس حق خوارادیت سے محروم کیا جاتا رہا ہے جو انہیں اقوام متحدہ نے دیا تھا تاہم اس کے باوجود اقوام متحدہ نے کسی قسم کا اقدام نہیں کیا حالانکہ ان ستر سالوں میں ایک لاکھ سے زائد کشمیریوں کو بھارتی فورسز شہید کر چکی ہے۔ اقوام متحدہ کی اپنی رپورٹ کے مطابق بھارت کشمیر میں انسانی حقوق کی بڑے پیمانے پر خلاف ورزیوں میں ملوث ہے۔ یہ جنت نظیر وادی دنیا کی سب سے بڑی جیل بن کر رہ گیا ہے جہاں کے باسیوں کو آئے روز تشدد، کاروبار کی بندش، کریک ڈاؤن، مقدمات، فون انٹر نیٹ کی بندش سمیت دیگر مختلف قسم کی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایسے افراد کی بڑی تعداد جیلوں میں موجود ہے جن کی اولاد جوان ہو چکی ہے لیکن وہ ان سے ملنے کو ترس گئے ہیں۔ جیلوں میں موجود نوجوان ذہنی و جسمانی ازیتیں سہتے ہوئے معذور ہو چکے ہیں۔ عورتیں بیوہ اوبچے یتیم ہونے کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ عالمی انسانی حقوق کے ادارے، ایمنسٹی انٹر نیشنل اور عالمی میڈیا بار بار اس پر رپورٹ شائع کر چکے ہیں کہ مقبوضہ کشمیر میں رہنے والے کشمیریوں کو وہ حقوق حاصل نہیں جو آزاد قوموں کو ہوتے ہیں لیکن اس کے باوجود اقوام متحدہ جس میں ہر سال کشمیریوں کے حوالہ سے گفتگو ہوتی ہے خاموش ہے۔ رواں ماہ کے آغاز میں ہی بھارت نے اس متنازعہ علاقے میں یکطرفہ اقدامات کرتے ہوئے آرٹیکل 370اور 35اے کو ختم کر دیا جس کے تحت مقبوضہ کشمیر میں غیر کشمیری کو شہریت رکھنے کا اختیار حاصل نہیں تھا۔ چونکہ اقوام متحدہ کے تحت یہ ایک متنازعہ علاقہ ہے اور قراردادوں کے مطابق یہاں کشمیریوں کے درمیان اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کے لیے استصواب رائے کا حق دیا گیا تھا۔ یہ استصواب اقوام متحدہ کی زیر نگرانی کروایا جانا تھا۔ کشمیریوں کی تیسری نسل اس قت اپنے اس حق کے لیے لڑ رہی ہے۔بھارت نے اپنے اس یکطرفہ اقدامات سے قبل سات لاکھ آرمی کے باجود مزید دستوں کو وادی میں پہنچایا تاکہ کشمیریوں کو اس پر احتجاج کا حق بھی نہ دیا جائے۔ گزشتہ سترہ دن سے وادی ایک مکمل جیل بن چکی ہے جہاں کے مکین اپنے اپنے گھروں میں قید ہیں۔ جنت نظیر وادی گزشتہ سترہ دن سے کرفیو کی زد میں ہے گلی محلوں، چوکوں اور سڑکوں پر بھارتی فوجی دندناتے پھر رہے ہیں ایسے میں کوئی مجبور شخص باہر نکلتا ہے تو اسے گرفتار کر کے تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ یہی نہیں مقبوضہ کشمیر میں موجود سیاسی قیادت بھی نظر بند ہے۔جموں کشمیر پیپلز موومنٹ کی رہنما شہلا رشید کے مطابق بھارتی فوجی نہ صرف کرفیو کے دوران گھروں پر حملہ آور ہوتے ہیں بلکہ توڑ پھوڑ بھی کرتے ہیں اس سے بھی زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ کچھ لوگوں کو گرفتار کرکے کیمپ لیجایا جاتا ہے اور پھر وہاں ان پر تشدد کیا جا تا ہے ان کی دردناک چیخیں سپیکر کے ذریعے سنائی جاتی ہیں تاکہ لوگوں میں خوف و ہراس کی فضا پیدا ہو۔ یہ اقدامات اس ملک کی طرف سے کیے جارہے ہیں جو دنیا میں اپنے آپ کو ایک سیکولر ملک قراردیتا ہے۔ بھارتی فوج، پیراملٹری فوج اور پولیس کے باوجود کشمیری اپنے حق سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں ہیں۔ کرفیو کے باوجود جونہی انہیں موقع ملتا ہے وہ باہر نکلتے ہیں احتجاج کرتے ہیں جس پر انہیں بھارتی فوج کی جانب سے سخت مزاحمت کا نشانہ بھی بننا پڑتا ہے۔ اس وقت وادی کا ناطہ باہر کی دنیا سے مکمل طور پر کٹا ہوا ہے تاہم تھوڑی بہت جو خبریں آرہی ہیں اس کے مطابق اس وقت ہزاروں کی تعداد میں کشمیریوں کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کی جیلیں بھر چکی ہیں اور اب مختلف سرکاری اداروں میں ان قیدیوں کو رکھا جارہا ہے۔ عالمی میڈیا کے مطابق مقبوضہ وادی میں ایک لاوہ پک رہا ہے جو کسی بھی وقت آتش فشاں کا رخ اختیار کر سکتا ہے۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان اس وقت صورتحال انتہائی کشیدہ ہے۔ لائن آف کنٹرول اس وقت جنگ کا منظر پیش کر رہی ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان سفارتی و تجارتی تعلقات انتہائی کم سطح پر آچکے ہیں۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بار دونوں ممالک کے درمیان تنازعہ حل کرنے کے لیے ثالثی کی پیشکش کی ہے اور کہا ہے کہ وہ جی سیون کے اجلاس کے موقع پر بھارتی وزیراعظم سے اس پر بات کریں گے۔یہ درست ہے کہ اس وقت بڑی طاقتیں امریکہ روس چین برطانیہ سمیت دیگر ممالک افغان جنگ کو ختم کرنے کے لیے مختلف کوششوں میں مصروف ہیں لیکن یہ بات بھی درست ہے کہ مقبوضہ کشمیر کی صورتحال افغان جنگ سے زیادہ خطرناک رخ اختیار کرتی جارہی ہے۔ پاکستان اس مسئلہ کو حل کرنے کے لیے سفارتی سطح پر متحرک ہو چکا ہے۔ مختلف ممالک سے رابطہ، دفتر خارجہ میں کشمیر ڈیسک کا قیام، وزیر اعظم کے ٹرمپ، محمد بن سلیمان سمیت دیگر ہم منصوبوں سے رابطے روزانہ کی بنیاد پر ہورہے ہیں۔ اب اس موقع پر اگر عالمی عدالت انصاف اپنا کردار ادا کرنے میں ناکام رہی تو شاید اقوام متحدہ کا وجود بھی بے معنی ہو کر رہ جائے گا۔دنیا میں اب اگر کسی جگہ ایٹمی جنگ کا خطرہ موجود ہے تووہ خطہ جنوبی ایشیا ہے اور اس کی واحد وجہ کشمیر تھی ہے اور رہے گی جب تک کہ کشمیریوں کو ان کا حق خود ارادیت نہیں دیا جاتا۔بھارت اپنے ہتھکنڈوں کی بدولت کشمیریوں کو ان کی جدوجہد آزادی سے نہیں روک سکتا لیکن اقوام متحدہ اور دیگر عالمی طاقتوں کی خاموشی جنوبی ایشیا کے خطہ میں کوئی بڑے سانحہ کو جنم دے سکتی ہے۔یہ سانحہ افغان جنگ سے بھی ذیادہ خطرناک ہو گا اور اس کا شکار محض جنوبی ایشیا نہیں بلکہ دوسرے خطے بھی ہو سکتے ہیں۔تاریخ کے اس بڑے اور ہولناک سانحہ کو روکنے کے لیے عالمی عدالت انصاف کا کردار حتمی فیصلہ کر سکتا ہے۔