کشمیر پر ثالثی کی پیشکش نے مودی کو باؤلا کردیا
کشمیر واقعی برصغیر کی تقسیم کا نامکمل ایجنڈا ہے۔ برصغیر میں امن مسئلہ کشمیر کو حل کیۓ بغیر ممکن نہیں اور یہ ایک ٹائم بم کی طرح پاکستان اور بھارت کے درمیان ٹک ٹک بج رہا کسی بھی وقت دونوں ملک اس مسئلے کی وجہ سے بڑی جنگ میں داخل ہوسکتے ہیں۔ ستم ظریفی یہ کہ دونوں ممالک جوہری ہتھیاروں سے لیس ہیں۔
پاک بھارت جنگ ان جوہری تباہ کن ہتھیاروں کی وجہ سے پوری دنیا کے لیے تباہی کا پیش خیمہ بھی ثابت ہوسکتی ہے۔ اس لیے دنیا ان دونوں ممالک کے درمیان بڑھتی کشیدگی سے ہمیشہ خوف زدہ رہتی ہے۔ ہر تناؤ کے دوران عالمی قوتیں بیچ بچا کراہی دیتی ہیں۔
اگرچہ بر صغیر کے یہ دونوں روایتی حریف اس کشمیر تنازعے کی وجہ سے تین بڑی جنگیں لڑچکے ہیں لیکن اس کے باوجود یہ مسلہ حل نہ ہوسکا۔ 1947 سے لیکر اب تک یہ جوں کا توں ہے۔ کشمیر پاکستان کی شہہ رگ مانا جاتا ہے کیونکہ پاکستان کا مکمل انحصار کشمیر سے آنے والے پانیوں پر ہے اور اس کے علاوہ مسلم خطہ ہونے کی وجہ سے پاکستان کے ساتھ اس کا مذہبی تعلق بھی ہے۔ جبکہ بھارت بھی اسے اپنا اٹوٹ انگ مانتا ہےکیونکہ۔ بھارت کبھی نہیں چاہتا کہ معدنی و آبی وسائل سے بھرا یہ خطہ پاکستان کا حصہ بنے۔
اس لیے تو بھارت نے کشمیر کا پاکستان کے ساتھ قانونی الحاق کی خلاف ورزی کرتے ہوئے تقسیم ہند کے وقت ہی فوج کشی کی لیکن پاکستان کی جانب سے بھر پور جواب ملنے پر اقوام متحدہ کا پاس چلا گیا۔ اقوام متحدہ نے بھارت کے کہنے پر مداخلت کرتے ہوئے کشمیر میں جنگ بندی کراتے ہوۓ کشمیریوں کو حق خود ارادیت دینے کا لالی پاپ دیا۔ ستر سال سے زائد کا عرصہ گزرنے کے باوجود اقوام متحدہ اپنے وعدوں اور اپنی قراردادوں پر عمل نہ کراسکا۔
بھارت اقوام متحدہ کی قراردادوں سے مکر گیا اور پھر 1972 میں جنگ بندی کے لیے دونوں ممالک کے درمیان شملہ معاہدہ ہوا جس میں طے کیا گیا کہ دونوں ممالک اپنے تنازعات باہمی طور پر خود ہی کریں گے اور کسی تیسرے فریق کو بیچ میں نہ لائیں گے۔
اس معاہدے کی دونوں ممالک نے اپنی اپنی تشریح کی۔ بھارت نے موقف اپنایا کہ کشمیر سمیت تمام باہمی تنازعات شملہ معاہدے کی روح سے بغیر کسی ثالثی کے خود حل کریں اور ستم یہ کہ بھارت خود مزاکرات کی میز پر آنے کو پہلے تیار ہی نہیں ہوتا اگر عالمی برادری کے دباؤ پر مزاکرات کی میز پر آتا بھی ہے تو پھر کوئی خود ساختہ دہشت گردی کا وقوعہ اپنے دیس میں رچا کر مذاکرات سے پرے ہٹ جاتا ہے۔
"پاکستان کا یہ اصولی موقف رہا ہے کہ شملہ معاہدہ چونکہ 1971 کی جنگ بندی کے لیے تھا تو اس کا مینڈیٹ صرف اسی جنگ کے تنازعات ہی تھے جبکہ مسئلہ کشمیر اس کے مینڈیٹ میں نہیں اور اسے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل ہونا چاہیے۔ پاکستان نے شملہ معاہدے کے باوجود متعدد مرتبہ اقوام متحدہ اور عالمی طاقتوں کو مسلہ کشمیر حل کرانے کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کی درخواست کی۔"
لیکن بھارت کا عالمی برادری میں موقف رہا کہ وہ شملہ معاہدہ کی رو سے کسی ثالثی کو اس مسلے کے حل کے لیے قبول نہیں کرسکتا۔ پاکستان اور بھارت نے جب اس خطے کے سیکورٹی اتحاد شنگھائی تعاون تنظیم کی ممبر شپ کے لیے درخواست دی تو روس نے دونوں ممالک کو اس تنظیم کے پلیٹ فارم پر کشمیر سمیت دیگر تنازعات کو حل کرنے کی پیشکش کی۔
"2015 میں شنگھائی تعاون تنظیم نے روس کی سربراہی میں دونوں ممالک کو تنظیم کے مکمل ممبر بننے کی منظوری دیتے ہوۓ ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کرایا جس میں طے کیا گیا کہ دونوں ممالک مل بیٹھ کر کشمیر سمیت دیگر تنازعات کا پرامن حل نکالیں گے۔ روس کے شہر اوفا میں دونوں ممالک کے سربراہان نے روسی صدر کی موجودگی میں کشیدگی کو کم کرنے اور امن کو بڑھانے کا اعادہ کیا تھا۔"
تاہم اوفا اعلامیے سے پھر بھارت انکاری ہوگیا اور اس نے موقف اختیار کیا کہ کشمیر کے علاوہ وہ دوسرے تنازعات کو حل کرنے پر راضی ہے لیکن پاکستان کا موقف تھا کہ کشمیر ہی اصل مسلہ ہے اس کے بغیر بات چیت بے سود ہے۔ یوں پھر سے دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی بڑھتی گئی اور بھارت کشمیر میں پہلے سے زیادہ مظالم ڈھانے لگا۔
اب پاکستانی وزیراعظم کے حالیہ دورہ امریکہ کے دوارن امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے ثالثی کا کردار ادار کرنے کی پیشکش کرتے ہوۓ کہا کہ بھارت کے وزیراعظم مودی نے اُنہیں ثالثی کا کردار ادار کرنے کا کہا تھا۔ لیکن مودی اس سے بھی مکر گیا اور کہا کہ ٹرمپ کو امریکہ کے ثالثی کے کردار کا نہیں کہا۔
"امریکہ کی جانب سے ثالثی کی پیشکش نے مودی کو باؤلا کردیا ہے اور اس کا پاکستان کے خلاف جنگی جنون شدت اختیار کرگیاہے۔ ریاست کشمیر کی آئینی حیثیت ختم کرنے کے لیے بھارت کے آئین میں ترمیم کے ساتھ ساتھ اس نے تیس ہزار بھارتی فوج کی اضافی نفری کشمیر بھیجنے کا اعلان کردیا ہے اور مسلم اکثریتی کشمیر میں بھارت سے بڑے پیمانے پر ہندو لاکر کشمیر میں آباد بھی کیے جارہے ہیں تاکہ کشمیریوں کی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کردیا جاۓ۔ آۓ روز بھارتی فوج کی جانب سے جدید اور مہلک ہتھیاروں کو استعمال کرکے کشمیریوں پر ظلم کی ایک نئی داستان رقم کی جارہی ہے۔"
عالمی قوتوں کو اب اپنا بھرپور کردار ادا کرنا ہوگا اگر پہلے کی طرح اقوام متحدہ اور اقوام عالم مصلحت پسندی کا شکار رہے تو پھر دنیا کو جوہری جنگ سے کوئی بھی نہیں روک سکتا۔ کیونکہ دونوں ممالک ایک دوسرے کو مکمل فتح کرنے پر تلے بیٹھے ہیں۔ جہاں بھارت پاکستان پر قبضہ کرکے اکھنڈ بھارت کا خواب دیکھ رہا ہے وہیں پاکستان غزوہ ہند کے جہادی جذبے سے بھارت پر اپنا جنھڈا لہرانے کی دھن بن رہا ہے۔ ایسے میں دونوں ممالک کے درمیان کشمیر کا ٹائم بم پورے خطے کو جوہری جنگ میں دھکیل سکتا ہے۔