پاکستان نے شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس کی میزبانی سے کیا پایا؟
شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس کی میزبانی کرکے پاکستان نے نہ صرف سفارتی طور پر بلکہ معاشی اور عسکری حوالے سے بھی خاطر خواہ کامیابیاں حاصل کی ہیں، بلاشبہ اجلاس کے کامیاب انعقاد پر پوری پاکستان کی قوم مبارکباد کی مستحق ہے کہ ہم نے اپنے غیر ملکی مہمانوں کی اپنی روایات کے مطابق بہترین مہمان نوازی کی ہے، سفارتی طور پر جہاں پاکستان عالمی توجہ کا مرکز بناوہیں شنگھائی تعاون تنظیم کے ریجنل انٹی ٹیررسٹ سٹرکچر (RATS-SCO) کی انتظامی کمیٹی کی جانب سے دہشت گردی کے خلاف پاکستان کے موقف کی بھرپور تائید کی گئی
تنظیم کے علاقائی انسداد دہشت گردی کے سٹرکچر نے داعش اور خوارجی دہشت گردوں کے خلاف پاکستان کی بھرپور حمایت کا اعادہ کیا یہی وجہ ہے کہ روس اور پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف درزوبا یعنی دوستی کی مشقیں بھی پاکستان میں ہورہی ہیں، اگر چہ افغانستان بھی شنگھائی تعاون تنظیم کا آبزرو ہے لیکن وہ شاہد اسی خدشے کے پیش نظر اس اجلاس میں شریک نہیں ہوا کہ کہیں ایس سی او کے پلیٹ فارم پر روس اور چین اسے پاکستان کے خلاف دہشت گردی میں اپنی سر زمین کے استعمال کی معاونت نہ کریں تاہم اس کے باوجود RATS-SCO نے پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف نہ صرف بھرپور حمایت کی ہے بلکہ ممبر ممالک کو بھی پابند کیا ہے کہ اس حوالے سے پاکستان کی جو بھی ضرورت ہو اسے پورا کیا جاسکے تاکہ خطے میں پائیدار امن کی طرف بڑھا جاسکے۔
روس نے پاکستان کو اس خطے کے ایک اور ملٹری بلاک Collective Security Treaty Organization (CSTO) کے پلیٹ فارم سے بھی ہرممکن معاونت کی یقین دہانی کرائی ہے، سی ایس ٹی او میں بھی تقریباً وہی ممالک ہیں جو ایس سی او میں ہیں اور پاکستان اس فوجی بلاک میں بطور ابزور شامل ہے، شنگھائی تعاون تنظیم کی میزبانی کرکے پاکستان نے اس فوجی بلاک کے ممالک کے ساتھ بھی اپنی ہم آہنگی اور تعلقات کو مزید وسعت دی ہے
معاشی طور پر بھی پاکستان کو بہت بڑی کامیابیاں حاصل ہونگی کیونکہ اس یوریشیا کے خطے میں سب سے بڑی معاشی تنظیم یوریشین اکنامک یونین میں شمولیت کی باظابطہ طور پر دعوت روس کے وزیراعظم نے اجلاس کے دوران پاکستان کو دی ہے، یوریشین اکنامک یونین روسی کی سربراہی میں شنگھائی تعاون تنظیم کی چھتری تلے بہت فعّال کردار ادا کررہی ہے جس طرح شنگھائی تعاون تنظیم نیٹو کا متبادل ہے اس طرح یوریشین اکنامک یونین بھی یورپی یونین کا متبادل ہے، پاکستان میں باقاعدہ اس کی شمولیت سے پاکستانی مصنوعات کو وسطی ایشیا اور یورپ تک کی مارکیٹ براہ راست میسر ہوگی اور پھر اس یونین کے لینڈ لاک ممبر ممالک گوادر کے ذریعے گرم پانی تک باآسانی رسائی حاصل کرسکتے ہیں، افغانستان کے بغیر ہم ایران کے ذریعے اپنی مصنوعات بیلاروس اور مشرقی یورپ تک ریل روڈ کے ذریعے پہنچا سکتے ہیں، اور سب سے زیادہ آسانی مشترکہ کسٹم قواعد کی وجہ سے ہوگی، ممبر ممالک کے باڈر پر پاکستانی مصنوعات کو کسٹم کلیئرنس کے لیے زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑے گا۔
دنیا اس وقت دو حصوں یک قطںبی Unipolar World اور کثیر قطبی Multipolar world دھڑوں میں تقسیم ہے، خوشی کی بات ہے کہ پاکستان کا جغرافیہ کثیر قطبی دنیا کے تمام اتحادوں کے لیے ایک زپر Zipper کی حثیت رکھتا ہے، تبھی چین ہو یا روس وہ پاکستان کو ملٹی پولر ورلڈ کی تعمیر میں اپنا ہمنوا رکھتے ہیں، روس اور چین نے اپنے سب سے بڑے معاشی بلاک برکس BRICS میں بھی پاکستان کو باقاعدہ شمولیت کی دعوت دی ہے، کازان میں ہونے والی برکس سمٹ میں پاکستان بھی شرکت کرے گا۔ برکس کا ممبر ہونے کے بعد پاکستانی معیشت کو برکس ڈویلپمنٹ بنک کی بھی معاونت حاصل ہوجاۓ گی۔
شنگھائی تعاون تنظیم کے اس اجلاس کے کامیاب انعقاد پر پاکستان پھر سے خطہ جاتی انضمام کے لیے انتہائی اہمیت اختیار کرگیا ہے، بلاشبہ اب ہم اپنے خطے میں پھر سے ایک ایم اور ذمہ دار ملک کے طور پر ابھرے ہیں، پاکستان کی ترقی و خوشحالی کا سفر اب پھر سے شروع ہوچکا ہے اس تنظیم کے اجلاس کے ہماری معاشی اور سفارتی سطح پر بہت دورس نتائج برآمد ہونگے۔