امن کا قتل کیونکر ہوا؟

28.09.2019

افغانستان امن حتمی مرحلے پر پہنچتے ہی پھر سے قتل ہو گیا۔ یہ کوئی پہلی دفعہ نہیں ہوا بلکہ ہر بار جب یہ فیصلہ کن مرحلے پہ پہنچتا ہے تو پھر سے کوئی ایسا اقدام ہوتا ہے کہ ساری امیدوں کا قتل ہو جاتا ہے اور امن آتے آتے پھر سے جنگ جاری ہوجاتی ہے۔

یہ کوئی پہلی دفعہ نہیں ہوا بلکہ پہلی بار جب مری میں پاکستان کی مدعیت میں امریکہ اور طالبان کے مذاکرات کا آغاز ہوا تو طالبان رہنما ملا عمر کی موت کی خبر نے اس عمل میں تعطل پیدا کردیا۔ اس کے بعد پھر سے مزاکرات کا آغاز ہوا جب یہ حتمی مرحلے آیا تو امریکہ کی جانب سے بلوچستان کے باڈر پر ڈرون حملہ کرکے طالبان رہنما ملا اختر منصور کو قتل کردیا گیا جس کے بعد یہ معاملہ پھر سے لٹک گیا۔

امریکہ کی جانب سے افغان عمل کو نقصان پہچانے کی کاوشوں کو بھانپتے ہوۓ روس نے خطے کے ممالک کے ساتھ مل کر متبادل کوششوں کا آغاز کیا۔ پاکستان، چین، ایران اور وسطی ایشیائی ممالک کو مشترکہ خطہ جاتی افغان امن کے میکانزم کے لیے روس نے متحرک کیا۔ روس نے براہ راست طالبان کو افغانستان کا اہم شراکت دار تسلیم کرتے ہوۓ ان کا اعتماد جیتا اور پھر مذاکرات کی میز پر لیے آیا۔

روس اور طالبان کے بڑھتے مراسم سے خائف ہوکر امریکہ اور اس کے نیٹو اتحاد نے روس پر طالبان کی حمایت کا الزام عائد کیا اور پینٹاگون کہ جانب سے پروپیگنڈہ کیا گیا کہ روس طالبان کو امریکہ مخالف سرگرمیوں کے لیے ہتھیار اور عسکری معاونت فراہم کررہا ہے۔ کریملن کے جنوبی ایشیا کے نمائندے ضمیر کابلو نے اس کی تردید کرتے ہوۓ کہا کہ روس طالبان کو افغانستان کے امن کا شراکت دار تسلیم کرتا ہے اس لیے طالبان کے بغیر قیام امن ممکن نہیں ۔

روس نے وسطی ایشیائی ممالک کے سب سے بڑے فوجی اتحاد اجتماعی تحفظ تنظیم (سی ایس ٹی او CSTO) کو افغانستان کے لیے فعال کیا۔ افغانستان جو اس تنظیم کا آبزرور رکن بھی ہے کو روس نے اپنا کندھا پیش کرتے ہوۓ پیشکش کی کہ خطے کے تمام ممالک افغانستان اور اس کی عوام کو جنگ کی اس دلدل سے نکالنے کے لیے مکمل تیار ہیں۔ افغانستان میں موجود نیٹو کو یہ ناگوار گزرا اور اس نے سی ایس ٹی او کے لیے مشکلات پیدا کرتے ہوۓ افغانستان میں قیام امن کے لیے اس سے تعاون نہ کرنے کی ٹھان لی۔

نیٹو اور امریکہ نے افغانستان میں داعش کو فروغ دینا شروع کر دیا تاکہ یہاں سے وسطی ایشیا، چین، ایران اور پاکستان میں تین برائیوں؛ علیحدگی پسندی، دہشت گردی اور عسکریت پسندی کو ہوا دی جاۓ ۔ اس امریکی کاوش نے پورے خطے میں خطرے کی گھنٹی بجادی۔ روس اور چین نے فوری طور پر شنگھائی تعاون تنظیم کو متحرک کرتے ہوۓ اس کے خلاف بند باندھنے کے لیے ایس سی او کا دہشت گردی کے خلاف ڈیٹا بیس مرتب کیا اور علاقائی دہشت گردی مخالف سٹرکچر (Regional Anti-Terrorist Structure ) متعارف کرایا۔

افغان عوام اور طالبان کے لیے داعش کی موجودگی ایک بہت بڑا خطرہ تھی۔ طالبان نے اس نئے دہشت گرد گروپ کے خلاف جنگ شروع کردی۔ روس جو شام میں اس کے خلاف بر سرپیکار تھا اس نے داعش کو وسطی ایشیائی ریاستوں میں پاؤں جمانے سے روکنے کے لیے طالبان کو ہمنوا ہوگیا ۔دونوں کا دشمن ایک تھا اس لیے کل کے دشمن آج کے دوست بن گئے۔

روس, چین اور پاکستان نے طالبان سے مزاکرات کرتے ہوۓ قیام امن کے لیے انہیں قائل کیا ۔ماسکو میں یکے بعد دیگرے طالبان کی کئے دورے ہوئے ۔حتیکہ روس نے ماسکو کی سربراہی میں ہونے والے افغان مذاکرات میں واشنگٹن کو بھی شرکت کی دعوت دی لیکن واشنگٹن نے ہمیشہ اس سے پہلو تہی کی۔ واشنگٹن کے لیے یہ ناقابل برداشت تھا کہ روس افغان امن کی گاڑی کا ڈرائیور ہو ۔

اس لیے اس نے پھر سے پاکستان کو قائل کیا کہ وہ طالبان کو امریکی مزاکرات کی ٹیبل پر لے آۓ۔ پاکستان نے روس اور چین کو اعتماد میں لیتے ہوۓ پھر سے کوششیں شروع کردی یوں امریکہ اور طالبان کے درمیان مزاکرات کا ایک مرتبہ پھر سلسلہ شروع ہوا۔ امریکی اسٹیبلشمنٹ نے طالبان سے ان کے مستقبل کا ایجنڈا اور ان کے افغانستان میں سیاسی کردار سے متعلق تمام حکمت عملی لیکر عین اس موقع پر جب حتمی معاہدے پر دستخط ہونے تھے مکمل ہو ٹرن لے لیا۔

طالبان سے پھر دغا کرتے ہوۓ ان کے خلاف بھر پور فوجی کارروائی کی دھمکی بھی دے ڈالی اور یوں افغانستان میں امن کا کھلے عام قتل کیا۔ اب افغانستان میں طالبان کے بائکاٹ کے باوجود صدارتی انتخاب کا مرحلہ امریکی سربراہی میں زور و شور سے جاری ہے۔ طالبان جو افغانستان کے حقیقی شراکت دار ہیں وہ اس سیاسی عمل سے مکمل طور پر باہر ہیں۔ یوں پھر سے کابل میں امریکی سرکار کت کٹھ پتلی حکمران ہونگے اور کابل سے باہر طالبان کی حقیقی حکومت ہوگی۔

امن کے سنہری موقع کو گنوا کر افغانستان میں خون کی ہولی کا کھیل جاری رہے گا ۔صرف یہ نہیں بلکہ طالبان مخالف گروہوں کو پھر سے امریکی آشیر سے مظبوط کیا جارہا ہے۔ شمالی اتحاد سے لیکر داعش، اور افغان سیکورٹی فورسز سے لیکر ایساف فورسز تک سب طالبان کے خلاف پھر سے برسر پیکار ہونگے اور اس کے ماضی کی طرح مثبت نتائج کی بجاۓ عام افغان شہری لقمہ اجل بنے گے ۔اور افغانستان کے قریب ہمسایہ ممالک بھی اس سے بدامنی کا شکار رہیں گے۔

دراصل امریکی اسٹیبلشمنٹ خطے میں امن نہیں چاہتی اس لیے افغانستان سے متعلق ٹرمپ کی تمام کاوشوں کو بھی امریکی اسٹیبلشمنٹ نے قبول نہ کرتے ہوۓ افغان امن کے عمل کو سبوتاژ کیا ہے کیونکہ اس خطے میں بدامنی، دہشتگردی ہی سے امریکی استعمار کے مفادات وابستہ ہیں۔ یہاں سے چین، پاکستان، ایران، اور روس کی سابقہ ریاستوں کے خلاف پراکسی وار کو ہی جاری رکھا جاسکتا ہے۔