بصیرت ٗ تخلیقیت اور بائیں بازو کا نظریہ
میرے پہلے مضمون ٗمحمد اقبال ٗییورازیستو اور چوتھا راستہ کی اشاعت کے بعد میرے ایک پاکستانی دوست نے میری توجہ 8 نومبر2017 کو روز نامہ ڈان میں شاءع ہونے والے ماہر علی کے مضمون اقبال کا لینن کی طرف دلائی ۔
یہ مضمون انقلابِ روس کے سو سال اور فلاسفر کی پیدائش کے ایک سو چالیس سال مکمل ہونے کے تاریخی دن پر تحریر کیا گیا تھا ۔ اس مضمو ن میں محقق م ش کے اس مقالے کا حوالہ دیا گیا ہے جس میں وہ اقبال کے فلسفے کو’’ کمےونزم اور خدا ‘‘کا امتزاج قرار دیتا ہے ۔ اس ضمن میں وہ علامہ اقبال کی نظم لینن خدا کے حضور اور فرمانِ خدا کی مثال پیش کرتا ہے ۔ اپنے مضمون کے اختتام میں ماہر علی مصنفین کی ایک بڑی تعداد کو متاثرکرنے والے ’’بالشویک انقلاب کے تجربے‘‘ اور عالمی نظام سرمایہ داری کے خلاف لینن کے اعلان جنگ کا تذکرہ کرنا ہے ۔
مذکورہ مضمون پڑھنے کے بعد فورامیر ے ذہن میں شاعر نکو لائی کلیو ایو (klyuev) کے 1924 میں تحریر کردہ اشعار کی باز گشت سنائی دینے لگی
لینن میں کریژنسکی کی روح بولتی ہے
(کریژنسکی ۔ ۔ ۔ یونیسکو کی ایکوسسٹم فہرست میں شامل روس کا ایک سائنسی اہمیت کاعلاقہ )
ہرفرمان میں ماتم کی صدا گونجتی ہے
شاید تباہی و بربادی کی وجوہ کا
وہ پریموریے میں متلاشی ہے
( پریموریے ۔ ۔ ۔ ۔ قدیم روس کے یورپی حصے کے شمال میں بحیرہ کافور سے متصل علاقہ )
طلائی تمغات سینے پر سجائے مرزا
( مرزا ٗ تاتارجنگجوءوں کو کہاجاتا ہے )
ایوان دی گریٹ کا ڈنگا پیٹتا ہے
اورلینن گرداب اور طوفان
فرشتوں کے سر تھوپتا ہے
میرے لیے اس بات کا فیصلہ کرنا بہت مشکل ہے کے میرے ذہن میں نکولائی کلیو ایو کا ہی کیوں خیال آیا؟ جب کہ انقلاب کے دور میں شعرا کی بھر مارتھی اور ان میں مائیکووسکی جیسے بڑے بڑے نام بھی شامل ہے غالباً نکولائی کی نقرئی صدی میں بسنے والے دوسرے ماڈرن شعرا اور سڈی سرکلز کے ممبران سے قدر مختلف اس کی مذہب کے ساتھ رغبت تھی ۔ تاہم وقتاً فوقتاً وہ انقلاب کا ڈھول بھی پیٹنے لگتا تھا ۔
مثلاً 1922 میں پیٹر برگ میں شاءع ہونے والی نظم ’’ چوتھا روم‘‘ میں وہ روس کے شاہی خاندان کی موت پرشادیانے بجاتا ہے ۔ ۔ ۔
میں وہ فاسق الوہوں
جورمانوو کے محل میں اڑتا ہوا آیا
اور انتقام کے جوش کو
سرخ پھندے کی مضبوط گرہ میں جکڑ آیا
1905 اور 1907 کے درمیان اس کو کسانوں کو مشتعل کرنے اور فوج میں کمیشن سے انکار پر متعدد بار گرفتار کیاگیا ۔ ان حقائق کی روشنی میں اسے بالشویک ایجنٹ یا ان کا ہمدرد قرار دیا جاسکتا ہے ۔ تاہم حقیقت اس کے برعکس تھی ۔
نکولائی کی شخصیت تضادات کا شکار تھی ۔ روس کے شمال کے باسی ٗ مشہورشاعر یسے نن کے رفیق ( بعض لوگ اسے یسے نن کا استاد گرانتے ہیں ) کسان کی صلاحیتوں اور عوام کے مذہبی عقائد کے شعلہ بیاں ترجمان کو 1937 میں اس کے سر تھوپے گئے ’’ انقلاب مختلف سرگرمیوں ‘‘ کے جرم کی پاداش میں گولی مار دی گئی ۔ سرکاری اغلان کے مطابق وہ ’’روس بچاءو‘‘ نامی تحریک کے بانیوں میں شامل تھا ۔ حقیقت میں اس نام کی کسی تحریک کا وجود ہی نہیں تھا ۔ اس کی سزائے موت کی اصل وجہ کمیونسٹ حکومت کی پالیسیوں کے خلاف اس کا کلام تھا ۔
بیسیویں صدی کی دوسری دہائی کے دوسرے حصے میں نکولائی نے بالشویک پالیسیوں کے خلاف حتمی طور پر علم بلند کرلیا ۔ وہ بالخصوص کسانوں کے لیے اجتماعیت کے پروگرام کا شدید مخالف تھا ۔ یہی وہ دور تھا کہ نکولائی کے حکومت مخالف جذبات اپنے عروج پر تھے ۔
1928 میں شاءع ہونے والی اپنی نظم ’’پوگوریلشینا‘‘ میں اپنے سوویت نظام مخالف جذبات کا اظہار کچھ یوں کیا ہے ۔ ۔ ۔
روس کی روح سے شعلے لپک رہے ہیں
صلیب اور پیالے کا علم اٹھائے
ژالوں کا طوفان کہاں دستک دے رہا ہے
1934 میں ’’رزرخا‘‘ ( تباہی ) کے عنوان سے نظموں کا ایک سلسلہ شروع ہوا ۔ ان میں سے ایک میں نکولائی لکھتا ہے ۔
بیلا مور کی قاتل نہر
اکیمشکا نے کھودی
سرخ برسات تلے
ایک ایک ہڈی تلک
عظیم روس نم ہے
لوگوں سے آنسو چھپائے
آہوں کو سینے میں دبائے
اگر اس امر کو مدنظر رکھاجائے کہ 1932-1933کے دوران سوویت یونین کے ایک بڑے رقبے میں خشک سالی کی وجہ سے ملک شدید قحط کا شکار ہوا ( یہ موضوع آج بھی سیاسی حربے کے طور پر استعمال ہوتا ہے اور کسی دوسرے ملک میں کھینچی گئی تصاویر قحط سے مرنے والے سوویت شہریوں کا لیبل لگا کرپیش کی جاتی ہے) تو نکولائی کے تنقیدی کلام کو اشتعال انگیزی قرار نہ دینا ممکن نہیں تھا اور اسے اپنے جرم کا خمیازہ بھی بھگتنا تھا ۔
تفتیشی رجسٹر میں نکولائی کا جواب کچھ یوں درج ہے ۔ ۔ ’’ سوویت یونین کی حقیقت اور کمیونسٹ پارٹی اور سوویت حکومت کی سیاست کے خلاف میرے رجعت پسندانہ نظریات میرے مذہبی فلسفے پر مبنی عقائد کاماحاصل ہے ۔ میرے ننہال کا سلسلہ قدیم آزاد منش قوم کے پادری او اکم سے ملتا ہے ۔ میری تربیت قدیم روس کی ثقافت کے مطابق کرسونیا ۔ کیواور نووگوروو میں کی گئی ۔ میں قبل از پیٹرکے قدیم روس کا داعی ہوں اور اسی کے گیت گاتا ہوں ۔ سوویت یونین میں پرولتاری آمریت کے تئیں سوشلزم کے نفاذ نے حتمی طور پر میرے قدیم روس کے خواب کو چکنا چورکردیا ہے ۔ اسی لیے میں نے ملک میں سوشلزم کے نفاذ میں مصروف سوویت حکومت اور کمیونسٹ پارٹی کے خلاف بغاوت کا اعلان کیا ہے ۔ میرے نزدیک اس سیاسی مقصد کے حصول کے لیے اٹھائے گئے عملی اقدامات عوام پر ریاستی جبر ہے اور شہریوں کی آہوں اور خون سے آلودہ ہیں ۔ ‘‘
نکولائی کا کلام 1957 میں دوبارہ بحال کردیا گیا ۔
سانحہ انقلاب روس اورسرخ دہشت سے منسلک ان تاریخی واقعات کا تذکرہ تبدیلی کے نظام کے لیے استعمال ہونے والے مختلف ریاستی ہتھکنڈوں اور نکولائی اور علامہ اقبال جیسے بصیرت رکھنے والے لوگوں کے درمیان جنم لینے والے اختلافات کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے ۔
پہلی صورت میں عینی شاہد تمام واقعات کی تفصیلات کو گواہ تھا جب کہ دوسری صورت میں تمام معلومات کا ذریعہ پریس میں شاءع ہونے والے مہبم خبریں تھیں کیوں کو پریس بہت بری طرح کمیونسٹ پراپیگنڈے اور سنسر شپ کا شکار تھا ۔ غیر ملکی پریس بھی اپنی سیاسی ترجیحات کی وجہ سے حقائق توڑ مروڑ کر پیش کرنا تھا ۔
دونوں شعراء کی تخلیقی جستجو کی قدر مشترک کے دو پہلو ہیں ۔ ۔ ۔ تخلیق کی روایات ( عیسائیت اور اسلام ) کی سخت پاسداری اور مظلوم طبقات ( بالخصوص مفلسی کے مارا طبقہ او رمحنت کش ) کے لیے آواز بلند کرنا ۔
علامہ اقبال کی کتاب ’’ پیام مشرق‘‘ کا روسی ترجمہ اس کی تخلیق کے ٹھیک ایک برس بعد 1923 میں سوویت یونین میں شاءع ہوا ۔ جب کہ ’’ فلسفہ خودی‘‘ کی اشاعت 1918 میں برٹش انڈیا اور روس میں بیک وقت ہوئی ۔ سوویت یونین میں اقبال کے باقی ماندہ کلام کے تراجم کی اشاعت تیسری دہائی میں ہوئی ۔
ہم اس امر سے نا آشنا ہے کہ سوویت یونین کی سیاسی قیادت علامہ اقبال کے کلام سے متعارف تھی یا نہیں ۔ تاہم انقلاب کے فوراً بعد اور بعد ازاں بیسیویں صدی کی چھٹی دہائی میں سوویت یونین میں اس کے کلام کے تراجم کی اشاعت اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ سوویت یونین میں اقبال کو تحریک آزادی کی جدوجہد اور انقلابی رومانیت کے نظریات کا علم بردار تصور کیا جاتا تھا کلام اقبال کے سوویت نقاد اس کو ایک ایسا ترقی پسند مفک قرار دیتے تھے جو سامراجی قوتوں کے خلاف آواز بلند کرنے کے ساتھ ساتھ معاشرے اور عوام کی خدمت کی دعوت دیتا تھا تاہم سوویت یونین اور انڈیا کے درمیان دوستانہ تعلقات کی وجہ سے اقبال کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا ۔ مثال کے طور 1964 میں کلام اقبال کے ایک مجموعے کے دیباچے کا متن کچھ یوں تھا ’’ اقبال نے بحیثیت سیاستدان اپنی سرگرمیوں کے آخری ایام میں مسلمانوں کی رجعت پسندانہ تقسیم ہند کی تحریک کی حمایت کی جس کی وجہ سے نو آبادکاروں کو ہندوستان کو قوم کی پرست تحاریک میں دراڑیں ڈالنے کا موقع ملا ۔ علاوازیں اقبال نے مادیت پسند نظریات کی مخالفت کی اور جدید معاشرے کی اصلاح کے لیے اسلام میں مطابقت پیدا کرناے پر زور دیا ۔ علاوہ ازیں اقبال نے مادیت پسند نظریات کی مخالفت کی اور جدید معاشرے کی اصلاح کے لیے اسلام میں مطابقت پیدا کرنے پر زور دیا ۔ اس طرز کی تشریح اور تاریخی حقائق سے قطع نظری اس دور کے سوویت نظام کے سنسر شپ کا خاصہ تھا ( ان دنوں اپنے شدید مذہب مخالف رویے کیلئے مشہور نیکیتا خروشیوسوویت کمیونسٹ پارٹی کے جنرل سیکرٹری کے عہدے پر فائز تھا ’ یہی وجہ ہے کہ سوویت دور میں اقبال کو بحیثیت شاعر پذیرائی اور مقبولیت ملی ۔ جب کہ بحیثیت فلسفی اور سیاستدان اسے تنگ نظر قرار دیا گیا ۔
تاہم تاریخ نے ثابت کیا کہ حقیقت میں مارکسسٹ اور کمیونسٹ نظریات تنگ نظری کا شکار تھے ۔ اگر بالشویک عوام کی اکثریت کے نمائندگان ہوتے تو روس میں نہ تو عبادت گاہیں تباہ ہوتیں اور نہ ہی عقیدہ پرست عیسائیوں اور مسلمانوں کو تکالیف جھیلنی پڑتیں ۔ اس غلطی کا اعتراف بیسیوں سال بعد کیا گیا ۔ علاوہ ازیں انصاف پر مارکسزم کی اجارہ داری نہیں ہے ۔ انصاف عیسائیت اور اسلام کا بھی اہم ستون ہے ۔ شاید یہ کہنا بے جانہ ہوگا کہ درحقیقت مارکسزم کے نظریات کو ردو بدل کے ساتھ مخصوص سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا ہے ۔ دورحاضر میں مغرب میں ان نظریات کی پیروی کرنے والوں کی سرگرمیاں ان کی شدید تنزلی کا منہ بولتا ثبوت ہیں ۔ اس کی ایک مثال 2011 میں یورپ کی تمام کمیونسٹ پارٹیوں کے تئیں لیبیا پر نیٹو اتحاد کی بمباری کی حمایت ہے ۔ نام نہاد ثقافتی مارکسزم نہ صرف تاریخ کی سچائی کو سمجھنے سے قاصر ہے بلکہ عملی طور پر بے راہ روی اور بے لگام آزادی کو ادارتی تحفظ دیتا ہے ۔ ان حقائق کی روشنی میں ڈنکے کی چوٹ یہ کہاجاسکتا ہے کہ علامہ اقبال کا اخلاقی اقدار کی اصلاح پر زور دینا ایک مخلصانہ مشوورہ ہے ۔
مصنف لیوند ساون
مترجم ڈاکٹر نجم السحربٹ