اگر ہم اسرائیل کو تسلیم کر لیں تو کیا ہو جائے گا؟

01.08.2019

کچھ بھی نہیں ہو گا بس عرب دنیا کا خاتمہ ہو جائے گا. اور مجھے ڈر ہے کہ عرب اپنے خاتمے کی ابتدا خود کریں گے. حدیث کا مفہوم یاد رہے کہ دجال کی فوجیں مکہ و مدینہ کی سرحدوں تک پہنچ جائیں گی. یہ عمل آثارِ قیامت میں سے ایک ہے. لیکن اس کی ابتدا تب ہو گی جب عرب اسرائیل کو تسلیم کر لیں گے. بات صرف اسلام کی نہیں ہے. بات نسلی تعصب اور نسلی برتری کی بھی ہے. عرب اور یہودی آپس میں کزن ہیں اور اسرائیلی یہودی، عربوں کو اپنے دشمن کی نگاہ سے دیکھتے ہیں.

یہودیوں کے بڑے کہتے ہیں کہ آخری نبی ان کی نسل یعنی حضرت اسحاق علیہ السلام سے آگے چلنے والی نسل میں سے ہونا چاہیے تھا. لیکن ایسا نا ہوا اور یہودیوں کی نسل در نسل، قرن ہا قرن نافرمانیوں کے سبب نبوت کی عظیم ترین ذمہ داری ان کی نسل سے اٹھا لی گئی.

انبیاء کے باپ حضرتِ ابراہیم علیہ السلام کے دو بیٹے تھے. حضرت اسحاق علیہ السلام جو بی بی سارہ سلام اللہ علیہا سے تھے اور حضرت اسماعیل علیہ السلام جو کہ بی بی حاجرہ سلام اللہ علیہا کے بطن سے پیدا ہوئے تھے. بی بی حاجرہ سلام اللہ علیہا اور حضرتِ اسماعیل علیہ السلام کو حضرتِ ابراہیم علیہ السلام اللہ کے حکم سے مکہ چھوڑ گئے تھے. اور خود بی بی سارہ سلام اللہ علیہا اور بیٹے اسحاق نبی کے ساتھ فلسطین میں رہے. ویسے حضرت ابراہیم علیہ السلام کا آبائی وطن عراق تھا اور فلسطین آپ ہجرت کر کے آباد ہوئے تھے.

حضرت اسماعیل علیہ السلام کے ایک بیٹے کا نام قیدار تھا. ان کی اولاد میں ایک شخص تھے جنہیں عدنان کہا جاتا ہے اور ان کی اولاد بنو عدنان کہلائی، عرب انہی عدنان کی نسل سے ہیں۔ عدنان کے ایک بیٹے کا نام معد تھا اور معد کے ایک بیٹے یعنی عدنان کے پوتے کا نام نزار تھا۔ نزار کے ہاں ایک بیٹا پیدا ہوا تھا جن کا نام مضر تھا. اور مضر کی اولاد میں فہر بن مالک پیدا ہوئے تھے۔ حضرت فہر بن مالک کو قریش بھی کہتے تھے۔ یہ عالی نصب خاندانِ قریش کے جد امجد ہیں اور خاندانِ قریش میں ہی نبی ختمی المرتبت صل اللہ علیہ و الہ وسلم کی ولادت با سعادت ہوئی اور دنیا سے ظلمت نور میں بدل گئی.

بنی اسماعیل میں اس سارے عرصے میں بیٹے پیدا ہوتے رہے جبکہ بنی اسحاق میں نبی آتے رہے. یہودی اس غلط فہمی میں مبتلا تھے کہ آنے والا آخری نبی بھی ہم ہی میں سے ہو گا. حضرت اسحاق علیہ السلام کے بیٹے حضرت یعقوب علیہ السلام تھے. حضرت یعقوب علیہ السلام کا لقب اسرائیل تھا جس کے معنی ہوتے ہیں اللہ کا بندا. مکہ میں حضرت ابراہیم علیہ السلام اور اسماعیل علیہ السلام نے کعبہ کو پرانی بنیادوں پر کھڑا کیا تھا. جبکہ حضرت اسحاق علیہ السلام نے فلسطین میں جو عبادت گاہ بنائی تھی وہ جگہ بعد میں بیت المقدس کہلائی. خیر اسحاق علیہ السلام کے ایک بیٹے نبی یعقوب علیہ السلام تھے. یعقوب علیہ السلام کے بارہ بیٹے تھے. ان بارہ بیٹوں سے جو قبیلے آگے چلے وہ بنی اسرائیل کہلائے. یعقوب علیہ السلام کے بعد یوسف علیہ السلام نبی ہوئے، پھر موسی علیہ السلام، پھر ہارون علیہ السلام، پھر داؤد علیہ السلام، پھر سلیمان علیہ السلام، پھر دانیال علیہ السلام یہاں تک کہ حضرت عیسی ابن مریم علیہ السلام نے اعلان نبوت فرمایا اور جنہیں یہودیوں نے نبی ماننے سے انکار کر دیا. ماضی میں سینکڑوں نبی اور بھی بنی اسرائیل میں پیدا ہوئے تھے. بنی اسرائیل کچھ کا انکار کرتے، کچھ کو قتل کر دیتے جیسا کہ ذکریا علیہ السلام اور یحیی علیہ السلام اور کچھ کی جزوی باتیں مان لیتے. حضرت عیسی علیہ السلام کو بھی یہودی اپنی جانب سے قتل کر چکے ہیں.

جب بنی اسرائیل میں نبی آ رہے تھے بنی اسماعیل میں نہیں آ رہے تھے. عرب لوگ آگے چل کر بت پرستی پہ لگ گئے. یہاں تک کہ خطہ عرب کفر و شرک کے اندھیروں میں ڈوب چکا تھا جب آپ صل اللہ علیہ و الہ وسلم نورِ ہدایت لے کر آئے اور دنیا کو پھر سے منور کیا.

یہاں آ کر یہودیوں کا ہم سے اختلاف پیدا ہوتا ہے. وہ یہ ماننے سے ہی انکاری ہو گئے کہ آخری نبی اسحاقؑ کے بجائے اسماعیلؑ کی نسل میں سے پیدا ہوا. وہ کہتے تھے اللہ ایسا کیسے کر سکتا ہے کہ اب تک سارے نبی ہماری نسل میں بھیج کر آخری نبی عربوں میں بھیج دے. یہاں سے نسلی تعصب کا بھی آغاز ہوا. اسلام کی آمد سے قبل فلسطین رومیوں کے قبضے میں تھا. چوتھی صدی عیسوی میں یعنی اسلام کی آمد سے دو سو سال قبل رومنوں نے عیسائیت قبول کر لی. یہودی نافرمانیوں کے سبب دنیا بھر میں منتشر تھے اور تھوڑے بہت وہیں یا گردونواح میں آباد تھے۔
حضرت عمرِ فاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں فلسطین مسلمانوں کے پاس آ گیا. یہودیوں کو یہ ملال بھی تھا کہ ان کی سرزمین پہ مسلمانوں کا قبضہ کیوں ہوا۔ گو کہ اس سے پہلے بابلی، یونانی، فارسی اور رومی بھی وہاں قبضہ کر چکے تھے۔ لیکن نسلی تعصب کی بنا پر انہیں تکلیف ہوئی تو مسلمانوں سے۔ مسلمانوں نے قبلہ اول کو واپس لیا تھا اس بنا پر کہ قیادت اب مسلمانوں کے ہاتھ میں ہے۔ اور اسلام جن پیغمبروں کی تائید کرتا ہے ان کی سرزمین بھی مسلمانوں کے پاس ہونی چاہیے۔ دوسری جانب اسرائیلیوں کا اس پہ اپنا دعوی ہے۔

اسرائیلی صیہونی اسرائیل کو ارضِ موعود کہتے ہیں۔ یعنی وہ سرزمین جس کا ان سے وعدہ کیا گیا تھا۔ یعنی ان کے عقیدے کے مطابق وہ خدا کی پسندیدہ ترین مخلوق ہیں اور زمین میں بادشاہت کا جو وعدہ اللہ نے ان سے حضرت سلیمان علیہ السلام کے وقتوں میں کیا تھا وہ پورا ہو کر رہے گا۔ لہٰذا وہ اپنی ارضِ موعود کےلیے لڑ رہے ہیں۔ اب اگر کوئی یہ سوال کرتا ہے کہ اسرائیل کو تسلیم کر لینے سے میں کیا ہرج ہے تو اسے پتہ ہونا چاہیے کہ بات اسرائیل کی نہیں ہے۔ بات ارضِ موعود کی ہے۔ ارضِ موعود یعنی دجلہ و فرات کا تمام علاقہ۔ جس میں پورا فلسطین، آدھا شام، آدھا عراق، پورا اردن اور آدھا سعودی عرب اور آدھا مصر آتا ہے۔ اسرائیلی یہودیوں کی کوشش اسرائیل نہیں بلکہ گریٹر اسرائیل ہے۔ یہ امریکہ جو مڈل ایسٹ میں لڑتا پھر رہا ہے کیا بلاوجہ ہے؟ ہر گز نہیں۔

جس دن فلسطین پہ اسرائیلیوں کا مکمل قبضہ ہوا فلسطین کی اندرونی مزاحمت دم توڑ جائے گی۔ اور جب اسرائیل کے سامنے سے مزاحمت ہٹ جائے گی اسرائیل اگلا قدم گریٹر اسرائیل کےلیے اٹھائے گا۔ دیوارِ گریہ سے لگ کر آج بھی یہودی اپنی اس عظمتِ رفتہ کو یاد کر کے روتے ہیں جو حضرت سلیمان علیہ السلام کے زمانے میں تھی۔ اور وہ آج بھی قسم کھاتے ہیں کہ اپنی کھوئی ہوئی عظیم تر ریاست واپس حاصل کر کے رہیں گے۔ فلسطین میں اسرائیل کا قیام اور اس کے بعد جس تیزی سے فلسطینی علاقوں پہ اسرائیل پھیلتا گیا، اگر یہ پھیلاؤ سامنے رکھ کر دیکھیں، تو یہ سمجھنے میں دشواری نہیں ہوتی کہ صیہونی صرف فلسطین تک نہیں رکیں گے بلکہ گریٹر اسرائیل کےلیے عربوں کی طرف بڑھیں گے۔ اور عرب جو کہ ایک ہزار سال تک یورپ سے لڑتے رہے ہیں، آج ٹرمپ کے ساتھ تلواروں کا رقص کر کے سمجھتے ہیں کہ شاید بچ جائیں گے۔ عربوں کو جاگنا ہو گا نہیں تو بہت دیر ہو جائے گی