کثیر قطبی لمحہ
انیس سو نوے میں واشنگٹن میں دیے گئے سلسلہ وار لیکچر کی بنیاد پر لکھے گئے آرٹیکل "یک قطبی لمحہ" میں مصنف چارلز کراتھامر لکھتے ہیں کہ نیا عالمی نظام (نیو ورلڈ آرڈر) سامنے آرہا ہے جس میں صرف امریکہ ہی اکلوتی سپر پاور ہوگا۔ آرٹیکل کے دوسرے پیراگراف میں کراتھامر امریکی سیاسی سائنسی حلقے میں زیر بحث تین نظریات متعارف کراتے ہیں: (1) کثیر قطبیت کا پروان چڑھنا (دلچسپی کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ مسقبل میں دینا کا ایک قطب یعنی سویت یونین/روس ختم ہو جائے گا، تاہم انہوں نے پہلے سے ہی سویت یونین کے انہدام کی پیش گوئی کی تھی). (2) امریکہ کے اندر ہی خارجہ پالیسی پر کمزور اتفاق رائے اور (3) بعد از سویت دور میں جنگ کے خطرات میں کمی۔ کراتھامر نےفوری طور پر ان دلائل کو غلط قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا اور بجائے اس کے کہ وہ امریکہ اور اس کے مغربی اتحادیوں کی یک قطبی دنیا میں غیر متنازعہ غلبہ کی بات کرتے بلکہ انہوں نے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بلاشبہ کثیر قطبیت اپنے وقت پر ہی آئے گی شاید اگلی نسل یا پھر اس سے اگلی نسل اس میں رہ رہی ہوگی جس میں بہت ساری عظمیں طاقتیں امریکہ کی برابری کریں گی اور مستقبل کی دنیا پہلی جنگ عظیم سے قبل کی دنیا سے مماثلت رکھے گی۔
"ایسا لگتا ہے کہ وہ لمحہ آچکا ہے لیکن اب ہمیں جلدبازی میں بیانات دینے کی بجائے پہلے ہمیں تجزیہ کر لینا چاہیے کہ کرا تھامر کہاں غلط تھا اور کہاں درست اور کن وجوہات کی بنا پر اس نے یہ نتیجہ اخذ کیا۔ واشنگٹن کے طور طریقوں سے متعلق جغرافیائی سیاست کی تاریخ کا یہ سفر ہماری یاداشت کو تازگی بخشے گا۔"
کرا تھامرنے خلیج فارس کے بحران اور واشنگٹن کے ردعمل کو پیشین گوئی کی مثال کے طور پر پیش کیا ہے: "خلیج میں امریکا کی سربراہی، اس کی چھیڑخانی،رشوت ستانی اور اس کی بلیک میلنگ کے بغیر کسی قسم کے کوئی مسائل پیدا نہیں ہوتے۔کچھ بھی نہیں ہوا، نہ کوئی پابندیاں، نہ کوئی صحرائی ڈھال، نہ کسی قسم کی طاقت کااستعمال۔" دوسرے الفاظ میں جیسا کہ یہ لگ رہا تھا ویسے یہ کثیرالاطرافی عمل نہیں تھا لیکن یہ امریکہ کا خصوصی مرتب کردہ منصوبہ ضرور تھا۔کراتھامر مزید لکھتا ہے کہ ایسا امریکہ کی داخلی وجوہات کی وجہ سے ہے۔کیونکہ امریکہ کے سیاسی رہنما یک طرفہ عمل بھی کثیرالاطرافی لبادہ اوڑھ کر کرتے ہیں۔ اور یقیناً ایسا ہی ہوا کیونکہ امریکی شہریوں کے جمہوری اعتقاد کے لیے قانونی حیثیت ضروری ہے۔
اب یہاں کراتھامر فوری طور پر ایک سوال کا جائزہ لیتا ہے: کب تک امریکہ اپنی یک قطبی موجودگی کو برقرار رکھ سکتا ہے؟ اس کے اختتام پر تنزلی کے نظریات اور سامراجی تناؤ پر روشنی ڈالنی چاہیے۔ یہ کراتھامر کچھ عدادوشمار متعارف کراتا ہے – امریکہ اپنی مجموعی جی ڈی پی کا 5.4فیصد دفاع پر خرچ کرتا ہے جبکہ پہلے اس کا دو گنا خرچ کیا اور اب انیس سو پچانوے کے بجٹ میں وہ 4فیصد کمی کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔ تاہم کراتھامر مزید کہتا ہے کہ "امریکہ کا دوسرے درجے تک کا خاتمہ خارجی نہیں بلکہ داخلی وجوہات کی وجہ سے ہوگا" ۔ آؤ اس پر غور کرتے ہیں
امریکہ کی خارجی و داخلی پالیسی میں توازن پر غور کرتے ہوئے کراتھامر تجویز دیتا ہے کہ" امریکہ کی خارجی سرگرمیاں معشیت کی تباہی کے سوا کچھ بھی نہیں۔ بیرونی دنیا کے معاملات میں امریکی مداخلت متعدد طریقوں سے اس کی معیشت کا لازمی ستون ہے۔پہلے کے برطانیہ کی طرح، امریکہ بھی ایک تجارتی، سمندری اور کاروباری ملک ہے جسے ترقی کیلئے آزادانہ اور مستحکم ماحول کی ضرورت ہے"۔ آگے چل کر وہ لکھتا ہے کہ امریکا اپنی یک قطبی اجارہ داری قائم رکھنے میں دلچسپی رکھتا ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا امریکی شہری بھی اس کی حمایت کرتے ہیں یا نہیں۔
یہاں ہم سیاسی اشرافیہ اور عام امریکی ٹیکس دہندگان کے مفادات کے درمیان دو نوعیتی فرق کا ذکر دیکھ سکتے ہیں. کراتھامر خود لکھتا ہے کہ امریکہ کی تنہائی منطقی نظر آتی ہے,جغرافیائی نظام کے لحاظ سے اس کی خارجہ پالیسی خدا کی ودیعت کردہ ہے اور امریکہ کی بانی تاریخ میں اس خواہش کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے کہ یہ خود کو پرانی دنیا کے تنازعات سے دور رکھے گا۔
کراتھامر قومی مفادات کو مقدم جاننے والے سنجیدہ اور پرکشش بین الاقوامی تعلقات عامہ کے مکتب فکر کو یاد کرتے ہوئے ایک اور رائے کا ذکر کرتے ہوئے کہتا ہے کہ " عالمی استحکام ودیعت کردہ نہیں اور نہ ہی اس کا کوئی قاعدہ ہے اور جب اسے حاصل کر لیا جاتا ہے تو یہ عظیم طاقت اور خصوصی طور پر عظیم ترین طاقت کے شعوری عمل کی مصنوعات بن جاتا ہے، جو موجودہ اور قابل ذکر طور پر مسقبل کی عظیم ترین طاقت امریکہ ہے۔ اگر امریکہ استحکام چاہتا ہے تو اسے اس کو قائم کرنا ہوگا۔ کیمونزم۔۔۔۔۔۔تقریبا ختم ہوچکا۔ لیکن ہمارے امن کو لاحق نئے خطرات موجود ہیں۔" ان خطرات میں سب سے پہلا اور فوری خطرہ بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں میں اضافہ ہے۔ اگرچہ غیر ذمہ دار اور ناکام ریاستوں کے تصورات موجود ہیں لیکن کرا تھا مر صرف ایک قسم کی The Waepon State ہتھیاری ریاست کا ذکر کرتے ہوئے عراق ،شمالی کوریا اور لیبیا سے متعلق بات کرتا ہے۔اس کی رائے میں ہتھیاری ریاست بننے کے لیے ملک کو اپنی صنعت کو ترقی دینے کی ضرورت ہوتی ہے اور اس سے پھر اضافی مفادات پیدا ہوتے ہیں جس سے دوسرے ممالک کے مفادات کے ساتھ تنازعہ جنم لیتا ہے۔ اس نقطے پر براہ راست بات نہیں کی گئی لیکن سیاق و سباق سے یہ واضح ہوتا ہے۔ کرا تھامر لکھتا ہے۔
"ہتپھیاری ریاست کے عروج کا سامنا کرنا یا اسے روکنے کا کوئی متبادل نہیں لیکن اگر اس کی جانب سے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار استعمال کرنے کا اندیشہ ہو تو اسے غیر مسلح کیا جاسکتا ہے لیکن ایسا کرنا کسی کے بس میں نہیں ماسوائے امریکہ کے جسے اس کام کے لیے متعدد اتحادیوں کا تعاون حاصل ہوگا۔ اس طرح کی مظبوط اور مشکل مداخلت میں یک قطبیت کا متبادل مستحکم نہیں اور کثیر قطبیت بھی جامد ہے۔ یہ کوئی اٹھارویں صدی کی دینا نہیں جس میں اقوام کے اس کھیل میں یورپ، روس، چین، امریکہ اور جاپان جیسی زبردست طاقتیں موجودہوں۔ یک قطبیت کا متبادل افراتفری ہے۔"
اس طرح کراتھامر نے تسلیم کیا ہے کہ کثر قطبیت نہ صرف ممکن ہے بلکہ اس کی تاریخی تمثیل بھی موجود ہے اور مزید یہ کہ استحکام کو جامد رکھنے میں بھی معاون ہے (اگرچہ 18 ویں صدی میں جاپان اور بلاشبہ امریکہ کا کردار قابل بحث ہے).
اسی ایک ہی موضوع "یک قطبی لمحہ پر نظرثانی" کے عنوان سے بارہ سال بعد کراتھامر کا اگلا آرٹیکل سامنے آیا جس میں وہ پہلے والے مقالے کو آگے بڑھاتے ہوئے کہتے ہیں کہ کیا امریکہ تنزلی کا شکار ہوگا؟۔ کراتھامر کا دعویٰ ہے کہ امریکہ کی یک قطبیت کو تیسرا درپیش خطرہ غیر ذمہ دار ریاستوں کی جانب سے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کا حصول ہے۔ اس آرٹیکل کی کوئی خاص اہمیت نہیں کیوں کہ یہ نیویارک میں دہشتگرد حملے کے ایک سال بعد اور عراق پر حملے کے ایک سال پہلے شائع ہوا (اقوام متحدہ کی منظوری کے بغیر یا پھر امریکہ نے یورپی اتحادیوں کی حمایت کے ساتھ فوجی حملہ کیا)۔ کراتھامر لکھتا ہے کہ "ایسا نہیں کہ امریکی غلبہ توجہ سے محروم ہے۔ انیس سو نوے کی دہائی میں یہ صرف چین اور روس ہی تھے جنہوں نے متعدد مرتبہ اپنی مشترکہ گفت و شنید میں یک قطبیت کی اعلانیہ مذمت کی، نئی صدی کے آغاز میں ہی یہ بات زبان زد عام ہو گئی۔ایک فرانسیسی وزیرخارجہ نے کہا تھا کہ امریکا سپرپاور نہیں بلکہ ہاپرپاور ہے۔" دوسرے الفاظ میں بہت سارے ممالک امریکی غلبے کو ناپسند کرتے تھے ۔ سربیا پر بمباری اور افغانستان پر قبضے کے پس منظر میں یہ واضح ہوگیا تھا۔ اپنی قومی حدود سے دور جنگوں کا مظاہرہ کرکے امریکہ نے دنیا کو اپنی طاقت کی نئی شکل دیکھائی۔
نائن الیون کے دہشت گرد حملے سے پہلے امریکی بالادستی کے خلاف نئے اتحاد کے امکانات پر غور و خوض کیا جارہا تھا لیکن اس کے بعد وہ ممالک جو امریکہ کی یک قطبیت پر عدم اطمینان کرتے تھے وہ بھی امریکہ کو معاونت کی پیشکش کرنے لگے۔ یہ سب دہشتگردی کے خلاف دیے گئے امریکی الٹی میٹم کی وجہ سے ہوا جس کا مقصد امریکہ کی جانب سےبڑے پیمانے پر فوجی کاروائی کے لیے مینڈیٹ حاصل کرنا تھا۔ دہشت گردی کی روک تھام کے لیے کی گئی کارروائیوں سے روایتی جنگوں کے نظریات کی خلاف ورزی ہوئی جس سے یک قطبیت بحران کا شکار ہوئی۔ کراتھامر کے مطابق یک قطبیت کی مستند تشکیل بقول پینٹاگون کے افغا نستان کے سر براہ ڈونلڈ رمزفیلڈ، دہشت گردی کے خلاف جنگ " وار آن ٹیر ر " ہے: " اتحاد کا تعین مہم کی وجہ سے ہے" مہم امریکہ کی متعین کردہ ہے۔
یہاں یہ قابل اہم ہے کہ کراتھامر نے اعتراف کیا ہے کہ لبرل انٹرنیشنل کی جانب سے تشکیل کردہ یہ کثیرالفریقی اتحاد امریکہ کو شرمندگی سے بچانے کے لیے ہے تاکہ واشنگٹن کی پالیسیوں سے اختلاف رکھنے والے ممالک اسے تنہا کرتے ہوئے فیصلے اپنے طور پر نہ کرسکیں۔اگر ہم سنجیدہ طور پر بل کلنٹن کی انتظامیہ کے دوران میڈیلین البرائٹ کا کثیر الفریقی نقط نظر اور اس کے ساتھ ساتھ باراک اوبامہ اور ہلیری کلنٹن کے دور میں اس نقطہ نظر کو دوبارہ ترتیب دینے کے معاملے پر غور کریں تو ہم امریکہ کے مفادات اور اس کی کشادگی نافذ کردہ ایجنڈے میں پر کھ سکتے ہیں۔ اور ایجنڈے کے اس نفاذ کو جاری رکھا گیا۔ کراتھامر کے الفاظ میں بڑے نقطہ نظر کے لیے داخلی سویلین معاشرے میں بین الاقوامی نظام کو یاد رکھنا ہی امریکی ماڈل ہے۔
اس نقطہ نظر سے قومی ریاست ماضی کے انتشار کی میراث نظر آتی ہے۔اس لیے کراتھامر وضاحت کرتا ہے کہ لبرل کے لیے ضروری ہے کہ وہ جدید ٹیکنالوجی اور سرحدوں کے پار سرمائے کی بلا تعطل فراہمی میں سرعت رفتاری لائیں تاکہ حاکمیت کا خاتمہ کیا جاسکے۔ لیکن امریکہ غلبے سے تکلیف محسوس کرنے والے لبرلز کے توڑ کیلیۓ امریکہ کا داخلی طور پر عظیم خود مختار ہونا ضروری ہے۔ اور یہ رخ یک قطبیت کے لیے ایک چیلنج ہوگا کیونکہ غالب قطب بین الاقوامی معاہدوں، متقابلیات، اور نئے اصولوں کی وجہ سے کمزور ہورہا ہے۔
اس نقطے پر کراتھامر بین الاقوامی تعلقات کے نظریات؛ لبرل ازم اور Realism کے درمیان ربط سازی بیان کرتے ہوئے کاغذ اور طاقت یعنی کہ فوج کے استعمال کے لیے معاہدوں یا دھمکی کے استعمال سے متعلق مختصر خلاصہ پیش کرتا ہے۔ دراصل کراتھامر قاری کو کثیر قطبیت کا سوال یاد دلاتے ہوئے خود کو متضاد قرار دیتا ہے۔ اگرچہ اس نے اپنے سابقہ آرٹیکل میں قطبیت کو مثبت انداز میں پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ کثیرقطبیت دوبارہ ابھر کر سامنے آئے گی لیکن اب اس کا انداز ڈرامائی طور پر تبدیل ہو چکا ہے جیسا کہ وہ لکھتا ہے" کثیر قطبیت موروثی طور پر سیال اور ناقابل اعتبار ہے۔یوروپ نے کثیر قطبیت کی کئی صدیوں سے مشق کی اور اس نے اس کو غیر مستحکم اور خونی پایا جیسا کہ 1914 میں متوازن اتحادی نظام مکمل طور پر تباہ ہوگیا اور یورپ سیاسی اور اقتصادی یونین بنا کر، مستقل چھٹکارا پاتے ہوئے کثیر قطبیت سے مکمل طور پر توبہ تائب ہو گیا اور اب دنیا کے لئے کثیر قطبیت کی حمایت کرنا انتہائی غیر مناسب ہے۔"
بیسویں صدی میں نہ صرف یوروپ بلکہ دنیا کے مختلف علاقوں میں حقیقی طور پر کثیر قطبیت اپنی ابتدائی شکل میں موجود تھی۔ایشیا ، افریقہ اور دونوں امریکہ یعنی شمالی امریکا اور لاطینی امریکا میں یورپ کے نو آبادیاتی نظام کی آمد سے پہلے یورپی روایتوں کے برخلاف ایسے نظام موجود تھے جو خصوصی میکنزم کے تحت توازن قائم کیے ہوئے تھے۔ مزید یہ کہ یورپی ممالک نے منطقیت اور روشن خیالی کے دائرے میں رہتے ہوئے ترقی کی اور اسی وجہ سے کرا تھا مر کے دلائل ناقابل تسلیم ہیں۔کراتھامر کو سمجھا جاسکتا ہے کیونکہ اگر ہم مصنف کی مغربی-مرکزی-ذہنیت اور امریکہ کے سیاسی سائنس دانوں کے رجحان کو تسلیم کرلیں تو یہ دوہرا معیار قابل جواز ہے۔ مزید برآں یہ کہ اس تبدیلی کی نوعیت واضح کرتی ہے کہ اس دور میں کثیر قطبیت کا فروغ متعدد ممالک کے مفاد میں ہے۔( اس میں نہ صرف روس اور چین بلکہ لاطینی امریکہ اور جولائی 2002 میں بننے والی افریقی یونین بھی شامل ہے).
مزید کراتھامر اپنا پیغام دیتے ہیں کہ " اصولی مقصد یہ ہے کہ استحکام کو قائم رکھا جائے اور موجودہ عالمی نظام کو قائم رکھتے ہوئے امن کو توسیع دی جائے۔ جس حقیقت پسندی کی میں دلیل دے رہا ہوں – اسے یک رخا نظام کہا جاتا ہے — جس میں خودشعوری کا عزم بہت واضح ہے اور جو عالمی تنازعات کو ختم کرنے کے لیے امریکی طاقت پر اعتماد رکھتا ہے۔" تاہم حقیقت پسندی کے برعکس یہ نقطہ نظر تجویز کرتا ہے کہ ایشیا ،افریقہ، جنوبی امریکہ اور عالمی سمندروں میں صرف امریکہ ہی عالمی مقاصد کو پروان چڑھا سکتا ہے۔
لیکن آو یاد کریں کہ 2002 اور 2003 میں حقیقی طور پر کیا ہوا۔ نیٹو نے سرکاری طور بلغاریہ، لٹویا، لیتھونیا، رومانیہ، سلواکیہ اور سلونیا کو اپنے اتحاد میں شمولیت کی دعوت دی؛ ریاست یوگوسلاویہ کے وجود کو ختم کرکے اسے سربیا اور مونٹینیگرو میں تقسیم کردیا؛ امریکہ نے افغانستان اور عراق پر فوجی قبضہ کرلیا؛ اسرائیل نے فلسطین کے خلاف کئی تادیبی کارروائیاں کیں؛ روس اور ترکی کی سرزمین پر متعدد دہشت گرد انہ حملے کیے گئے؛ اور سابقہ سویت ریاستوں میں رنگین انقلاب کا ایک تسلسل شروع ہوگیا اور جس کا موثر تجربہ یوگوسلاویہ میں نئی قسم کی بغاوت سے کیا گیا. کراتھامر کے نزدیک " یہ سب کچھ استحکام اور متعلقہ سکون ہے" حقیقت تو یہ ہے یہ سب کچھ امریکہ کی جانب سے کیا گیا جتنے بھی واقعات رونما ہوئے ان کے پیچھے براہ راست یا خفیہ طور پر واشنگٹن کی حوصلہ افزائی شامل ہے (ماسوائے 11ستمبر 2001 کے دہشت گردانہ حملوں کے تاہم یہ بھی آج تک سنجیدہ گفتگو کا مرکز ہیں)۔ یک قطبیت کو قائم رکھنے کا مقصد یہ بھی ہے کہ دنیا کو مصنوعی طور پر پہلی ،دوسری اور تیسری دنیا میں تقسیم کرکے بعد از نوآبادیاتی میراث کا تحفظ کیا جائے اور وہ ممالک جو بین الاقوامی کارپوریشنز،آئی ایم ایف اور عالمی بنک کی شکاری پالیسیوں اور امریکہ کی فوجی مداخلت کے خلاف مؤثر طریقے سے اپنا دفاع نہیں کرسکتے ان کے قدرتی وسائل کا بے رحمانہ طریقے سے استحصال کیا جائے۔ مشہور زمانہ"تحفظ کی ذمہ داری" کا نظریہ 1994 میں ہیٹی، 1990 کی دہائی کے ابتداء میں یوگوسلاویہ اور 1999 میں کوسوو اور میٹھوجیا میں آزمایا گیا۔
کراتھامر کے مطابق، "امریکہ کو جمہوریت کی پیشقدمی اور امن کی حفاظت کے لئے آخری متوازی طاقت ہونا چاہیے۔" اور "ممالک کو پہلے اپنے ذاتی مفاد اور پھر امریکہ جیسی دنیائے سپر پاور کے ساتھ بہتر تعلقات کی خواہش کے لئے انہیں ہمارے ساتھ تعاون کرنا ہوگا"۔ دوسرے الفاظ میں دیگر ممالک کے پاس کوئی اور حقیقی انتخاب ہی نہ ہو.
اگرچہ امریکا اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے یکطرفہ اور کثیر الاطرافی دونوں نقطہ نظر استعمال کرتا ہے۔ ان دونوں میں کوئی اصولی فرق نہیں جیسا کہ کرا تھامر سوالیہ انداز میں ان کو اس طریقے سے سمجھتا ہے کہ آپ کیا کروگے، اگر سکیورٹی کونسل آپ کی پشت پناہی سے انکاری ہو؟ جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل نے امریکہ کی عراق سے متعلق قرارداد کو پاس نہیں کیا۔امریکہ نے وہی کیا جسے وہ بہتر سمجھتا تھا۔ اس فوجی حملے سے پہلے (ہمیں کراتھامر کا 2003 میں عراق پر امریکی حملے سے کچھ ماہ قبل لکھے گئے دوسرے آرٹیکل کو یاد کرنا چاہیے) کراتھامر کو یقین تھا کہ یک قطبی لمحہ پہلے سے ہی یک قطبی دور بن چکا ہے۔
اس طرح آرٹیکل مندرجہ زیل نتیجہ رکھتا ہے:
نیا یک رخی نظام واضح اور ناقابل یقین حد تک یک قطبیت کو قائم رکھنے پر زور دیتا ہے تاکہ مستقبل میں امریکہ کا لاثانی غلبہ دائمی ہو۔ یک قطبی دور کا مستقبل اس پر ہے کہ آیا کہ امریکا میں ایسے لوگ برسراقتدار آئیں جو اسے قائم رکھنے اور آگے بڑھانے کے خواہش مند ہوں اور اس یک قطبیت کو نہ صرف امریکہ بلکہ دنیا کے اختتام کے لیے استعمال کریں۔ یا پھر امریکہ پر ایسے لوگ حکمران آتے ہیں جو اسے ترک کرنے کے خواہشمند ہوں یا پھر وہ یک قطبیت کو ختم کرنے کی اجازت دیتے ہوئے واپس امریکی قلعے میں حصار بند ہوجائیں یا پھر وہ اس بوجھ کو امریکہ کے مورثی کثیر الاطرافی اداروں کو منتقل کر دیں۔
اس لیے کراتھامر اعادہ کرتے ہیں کہ یک قطبیت کو باہر سے نہیں بلکہ امریکہ کے اندر سے چیلنج کیا جا ۓ گا۔
اب اس حاصل کل کو تبدیل کر دیتے ہیں۔ کراتھامر جزوی طور پر ٹھیک ہے کہ یک قطبیت کا انحصار امریکی سیاسی اشرافیہ پر ہے۔واضح اتفاق رائے کے فقدان، امریکی عوام کی خواہشات اور اسٹبلشمنٹ کے کارپوریٹ مفادات میں بڑھتے فرق نے عالمگیریت کی طرف مسلسل جھکاؤ کو فروغ دیا۔ ان سب عوامل نے مل کر عوامی مملکت کے رجحان کو جنم دیا اور جزوی طور پر امریکی علیحدگی کا نعرہ لگانے والے ڈونلڈ ٹرمپ کو انتخابات جتوانے میں مدد کی۔
بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے پھیلاؤ سے متعلق کراتھامر کا خوف غلط تھا، تقریبا 20 سال تک اس دائرے کے توازن میں عملی طور پر کوئی تبدیلی نہیں ہوئی۔ صرف شمالی کوریا نے جدید ملٹری ٹیکنالوجی کی صلاحیتوں میں اضافہ کیا اور ردعمل کے طور پر امریکہ کے فوجی و سیاسی حلقوں میں تشویش و خوف نے جنم لیا۔ بلاشبہ اس کی ایک اور مثال روس کی جانب سے شام میں دہشت گردی کے خلاف لڑائی میں فوج تعینات کرنا بھی ہے۔
یک قطبیت کا دور نہیں آیا۔ بدقسمتی سے یک قطبیت کا لمحہ تقریباً دو دہائیوں تک طویل ہو گیا لیکن یہ دور نہیں تھا۔ کراتھامر نے اپنے پہلے آرٹیکل میں ٹھیک کہا تھا کہ آئندہ نسل (نئی جنریشن) تک کثیر قطبیت آجائے گی۔ امریکہ کی قومی سلامتی کی حکمت عملی اور قومی دفاعی حکمت عملی کے مطابق امریکہ کو متعدد چیلنج کا سامنا ہے۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ روس اور چین کی جانب سے کثیر قطبیت کے اعلان کے بعد اب امریکی طاقت کے سامنے مظبوط حریف آچکے ہیں۔ ایران اور شمالی کوریا نے بھی بانگ دہل یک قطبیت کو للکارا ہے جبکہ واشنگٹن نے انہیں غیر ذمہ دار ریاستیں قرار دیا ہے۔ گزشتہ چند سالوں کا تجزیہ بتاتا ہے کہ ابھرتی کثیر قطبیت کی وجہ سے امریکہ طاقت کے عالمی مرکز پر اپنااختیار کھورہا ہے۔
اس لیے ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ کراتھامر نے غلط کہا تھا کہ یک قطبیت کو امریکہ کے اندر سے خطرہ ہے۔ مختلف حالتوں میں خطرات ہمشیہ باہر سے ہی آتے ہیں چاہے وہ ابتدائی طور پر ہوں یا منجمد، لیکن وہ قومی حکمت عملیوں کو تبدیل کرنے کے مناسب مواقع فراہم کرتے ہیں۔معاملہ کو سمجھنے کےلیے دیکھ سکتے ہیں کہ پہلا موقع ملتے ہی متعدد ممالک امریکی تسلط سے نکلنے میں کامیاب ہوۓ۔اس طرح کے معاملات مختلف چیزوں کو ظاہر کرتے ہیں: یہ موقع پرستی ہے یا پھر نوآبادیاتی مخالفت میں متحرک کردار ادا کرنے کی سعی , یا پھر نئے حل کی تلاش یا پھر امریکی سرگرمیوں کا ردعمل۔ یہ سب تبدیلیاں نظریاتی فریم ورک اور بین الاقوامی تعلقات عامہ کے مکتبہ فکر پر انحصار کرتی ہیں۔
سمجھنے کےلیے سب سے اہم یہ ہے کہ یک قطبیت ہمشیہ کے لیے تحلیل ہورہی ہے۔
حتیٰ کہ اگر ڈیموکریٹک پارٹی کے گلوبلسٹ ،ٹرمپ کو ہٹا بھی دیتے ہیں تو انہیں پہلے حاکمیت کوختم کرنا ہوگا جس میں امریکی حاکمیت بھی شامل ہے۔ انہیں فوری طور پد ٹیکس دھندگان سے نمٹنا ہوگا جنہوں نے ٹرمپ کو منتخب کرکے اپنی ترجیحات کا اظہار کیا۔ مزید برآں یہ کہ انہیں دیگر ممالک کی صلاحیتوں سے نبرد آزما ہونے کے لیے سنگین نتائج کا سامنا کرنا ہوگا اور وہ یک قطبیت کے فروغ کے لیے کلنٹن اور اوباما انتظامیہ جیسے نتائج ہرگز حاصل نہیں کرسکیں گے۔ کیونکہ اب امریکہ پر یقین مکمل طور پر مجروح ہوچکا ہے۔خصوصی طور پر نئی دستاویزات نے ایک مرتبہ پھر سٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے اوچھے ہتھکنڈوں کو پوری دنیا میں بے نقاب کردیا ہے۔ اس سے واشنگٹن کے ساتھ تعلقات منقطع کرنے کے دلائل کو تقویت ملی ہے اور امریکہ کے سابقہ اتحادی نئے اتحادوں کو ترجیح دینے لگے ہیں، دنیا کے تمام خطوں میں طاقتوں کا توازن نمایاں طور پر تبدیل ہونے لگا ہے۔
ہم اب خود کو کثیر قطبی لمحے میں پاتے ہیں۔ ہمارا کام اس کثیر قطبی لمحے کو کثیر قطبی دور میں تبدیل کرنا ہے۔