کیا امریکہ روس کے خلاف جنگ کی تیاری کررہا ہے؟
حال ہی میں رینڈ کارپوریشن نے غیر متوازی اور حد سے زیادہ بڑھتے ہوئے روس (کاسٹ امپوزنگ آپشنز کے تخمینے) کے عنوان سے رپورٹ شائع کی۔ یہ رپورٹ کہنہ مشق اور تجربہ کار سفارت کاروں ، محققین اور ملٹری سے تعلق رکھنے والے ماہرین کی اجتماعی کاوش ہے۔ ان میں امریکی وزارت خارجہ کے یورپ کے لیے سابق اسٹنٹ سیکرٹری اور یورپی یونین میں امریکہ کے سفیر اور بروکنگز انسٹیٹیوٹ، امریکن انٹرپرائز انسٹیٹیوٹ، نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کے پروفیسر جمیز ڈوبنز اور ریزرو آرمی کی ملٹری انٹیلیجنس برانچ کے لیٹنیٹ کرنل رافیل کوہن سمیت رینڈ کارپوریشن کے بین الاقوامی تعلقات عامہ، فوجی صنعت، انٹیلیجنس، سیاست اور ٹیکنالوجی کے شعبوں کے محققین شامل تھے۔
یہ ایک عملی سفارش ہے کہ کس طرح امریکہ روس کی کمزوریوں اور کوتاہیوں کو استعمال کرتے ہوئے اپنی سیاسی اور اقتصادی صلاحیتوں کو بڑھا سکتا ہے۔
روس کی توسیع کے عنوان سے انہیں مصنفین کی جانب سے لکھے گئے 300 طویل صفحات کا یہ ایک قسم کا مختصر خلاصہ ہے۔
تو کیا، واقعی یہ بااثر سیاسی تجزیہ کار امریکی اسٹیبلشمنٹ کو تجاویز پیش کر رہے ہیں؟
ان کا کل مدعا چار حصوں ؛اقتصادیات، جغرافیائی سیاست، نظریاتی و معلوماتی اور فوجی اقدامات میں تقسیم کیا گیا ہے۔واضح طور پر ان ماہرین نے امریکہ کی ممکنہ اخراجاتی صلاحیت کو پیش نظر رکھتے ہوئے منطقی طور پر اپنی حکمت عملی کو مرتب کیا ہے۔
اقتصادی سکیشن چار حصوں پر مشتمل ہے جن سے روس پچھلے کئی سالوں سے براہ راست متاثر ہو رہا ہے۔ ان میں سے پہلا حصہ امریکی توانائی کے ذرائع پیدوار اور اس کی برآمدات میں اضافہ کرکے عالمی قیمتوں پر اثر انداز ہوکر روس کے منافع کو محدود کرنا ہے۔ دوسرا حصہ پابندیوں میں اضافے سے متعلق ہے تاکہ دوسرے ممالک کو ملوث کرکے جہاں ضروری ہو وہاں پابندیاں لگا دی جائیں۔ اور اگلا حصہ یہ ہے کہ ایل این جی کی فراہمی سمیت یورپ کو نئے گیس فراہم کرنے والوں کو تلاش کرنے میں مدد دی جائے۔ اور حتمی طور پر یہ کہ ہنرمند اور تعلیم یافتہ نوجوانوں کی روس سے دوسرے ممالک کی جانب ہجرت کو ترویج دی جائے۔ پہلے تین انتخاب امریکہ کے لیے بہت زیادہ سود مند ہونگے اگرچہ مزید پانبدیاں سے کچھ مخصوص اندیشوں کا سامنا بھی ہوسکتا ہے۔
جغرافیائی سیاسی سکیشن میں امریکی ماہرین نے روس کو کمزور کرنے کے لیے چھے جیوپولیٹیکل تناظر تجویز کیے ہیں۔ انہوں نے نہ صرف وفاق روس میں مداخلت کی تجویز دی ہے بلکہ اس میں روس کے ہمسایہ ممالک بھی شامل ہیں۔ ہر تناظر میں مخصوص اندیشے، لاگت اور اس کے ممکنہ اثرات شامل ہیں۔
امریکیوں کے مطابق یوکرائن کو ہتھیاروں کی فراہمی میں معاونت روس کے لیے عظیم خطرہ ہوگی۔ لیکن یوکرائن کو ہتھیاروں کی فراہمی میں اضافہ میں بے حد احتیاط برتنی ہوگی تاکہ روس کو یوکرائن کے حوالے سے اپنے پہلے سے موجود نقطہ نظر کی بھاری قیمت چکانی پڑی اور یوکرائن کو یہ بھی ہدایت کرنی ہوگی کہ اس سے کوئی بڑا تنازعہ جنم نہ لے سکے۔ اگر ایسا ہوجاتا ہے تو یہ امریکہ کے لیے نہایت مفید ہوگا۔
یہ پہلا آپشن ہے۔ رینڈ کارپوریشن کے ماہرین کو یقین ہے کہ ایسا حد درجہ فائدہ مند ہوگا تاہم اس میں ممکنہ خطرات بھی بہت زیادہ ہیں۔
دوسرا آپشن شام کے باغیوں کی معاونت میں اضافہ ہے۔ تاہم اس سے امریکہ کی پالیسی ترجیحات جیسا کہ انتہا پسند اسلامی دہشت گردی کے خلاف جنگ متاثر ہوسکتی ہے اور پورے خطے میں مزید عدم استحکام جنم لے گا۔ انتہا پسندی کے متروک پونے، تقسیم در تقسیم اور شام کی حزب اختلاف کے زوال کی وجہ سے اگرچہ اب ایسا ہر گز ممکن نہیں۔
رینڈ کے ماہرین اس تناظر میں تمام ممکنہ خطرات کا ادارک کرتے ہوئے بین السطور اس آپشن کی تجویز دی ہے کہ کیونکہ دہشت گرد گروپوں کو امریکی مفادات کے لیے استعمال کرنا بہت سہل ہے۔ یہ طریقہ کار کوئی نیا نہیں، لیکن اس کے اطلاق کی بھاری قیمت چکانی پڑسکتی ہے کیونکہ اس میں بہت زیادہ خطرات موجود ہیں۔ اس سے امریکہ کے روایتی اتحادی نالاں بھی ہوسکتے ہیں جیسا کہ عراق میں مداخلت کے دوران صدام حسین کا تختہ الٹنے کی وجہ سے ہوا تھا۔
تیسرا آپشن بیلاروس میں لبرل ازم کو فروغ دینا ہے۔ مصنفین تسلیم کرتے ہیں کہ اگرچہ اس میں کامیابی تو ہوسکتی ہے تاہم روس کی جانب سے شدید ردعمل کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے جس سے یورپ کی سیکورٹی صورتحال مزید بگڑ جاۓ گی اور امریکی پالیسی کے لیے یہ ایک دھچکے سے کم نہ ہوگا۔ پہلے آپشن کی طرح خطرات بہت زیادہ ہیں لیکن فوائد بھی قابل ذکر ہیں۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ واقعی یہاں بیلا روس میں رنگین انقلاب کا حوالہ دیا جارہا ہے۔ بیلاروس کی قیادت کو رینڈ کارپوریشن کی اس سفارش کی طرف توجہ دینی چاہیے اور منسک میں امریکی سفارت کاروں سے اس بابت پوچھ گچھ ہونی چاہیے۔
چوتھا آپشن یہ ہے کہ جنوبی کاکاساس میں روس کے ساتھ اقتصادی مقابلے کے لیے تعلقات کو وسعت دی جاۓ لیکن جغرافیائی اور تاریخی طور پر اس پر عملدرآمد مشکل ہے۔
پانچواں تناظر یہ ہے کہ وسطی ایشیاء میں روس کے اثرورسوخ کو کم کیا جاۓ جو امریکہ کے لیے مشکل اور ناخوشگوار طور مہنگا ثابت ہوسکتا ہے۔
چٹھا اور حتمی تناظر Transnistria ٹرانسنسٹریا میں روس مخالف جزبات کو ہوا دیکر روسی فوج کا انخلا ہے اور یہ روس کے وقار کے لیے بہت بڑا دھچکا پوگا۔ اس کے الٹے اثرات بھی ہوسکتے ہیں۔ تاہم ماسکو پیسوں کو بچاۓ گا اور یہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے لیے اضافی اخراجات کا باعث ہوسکتا ہے۔
فکر کی بات یہ ہے کہ ان تمام تر چھے تناظر کا محور روس کے ہمسایہ ممالک ہیں۔ یہ ایک قسم کا روس کے بارڈرز پر پرانی ایناکوڈا حکمت عملی کو دو بارہ مرتب کرنے کے مترادف ہے۔
نظریاتی اور معلوماتی سیکشن روس کی داخلی پالیسیوں اور اس کے ملکی امور میں مداخلت کرنے سے متعلق ہے۔ اس کے صرف چار تناظر ہیں جو اپنے اندر خود بول رہے ہیں: انتخابی نظام پر یقین کو کمزور کرنا، سیاسی اشرافیہ معاشرے کے مفادات کو پورا نہیں کر رہی جیسے نقطہ نظر کی تخلیق، عدم تشدد کی مزاحمت اور مظاہروں کو جلا بخشنا، اور روس کے خارجی تشخص کو کمزور کرنا۔
روس کے خلاف فوجی اقدامات کے بھی متعدد آپشنز تجویز کیے گئے ہیں جن کو تین تزویراتی حصوں – فضا، سمندر اور خشکی میں بانٹا گیا ہے۔
موقف اختیارکیا گیا ہے کہ روس کے اہم تزویراتی اہداف کے لیے بمبارز کی سٹراکنگ فاصلے پر ری پوزیشنگ کی جائے تاکہ کامیابی کے امکانات کو بڑھایا جاسکے اور اس سے بلاشبہ ماسکو کی توجہ اس طرف مبذول ہوگئی اور تناؤ بڑھے گا۔ اس آپشن پر لاگت کم آۓ گی جبکہ روس کے بلاسٹک اور زمینی کروز میزائلوں کی رینج سے بھی بمبارز محفوظ رہیں گے۔
جنگی طیاروں کی بمبارز سے بھی زیادہ اہداف کے قریب تعینات کرنی ہوگی۔ اگرچہ رینڈ کےماہرین کو یقین ہے کہ ایسے اقدامات بمبارز کی نسبت روس کے لیے زیادہ پریشان کن ہونگے تاہم کامیابی کے نتائج کم اور خطرات زیادہ ہیں۔ روایتی تنازعہ کی صورت میں کم پےلوڈ کی وجہ ہر جہاز کو کئی حملے کرنا ہونگے اس لیے خدشات موجود ہیں کہ وہ زمین سے مار گراۓ جائیں گے یا پھر ان کے ہوائی فیلڈز ابتدا میں ہی تباہ کردے جائیں گے۔
یورپ اور ایشیا میں اضافی ٹیکٹکل جوہری ہتھیاروں کی تنصیب ماسکو کی پریشانیوں میں اصافہ کا باعث ہوسکتی ہے جس سے روس اپنے فضائی دفاعی نظام میں بہت زیادہ سرمایہ کاری کو فوقیت دے گا۔ بمبار آپشن کے اشتراک سے کامیابی کے امکانات بہت حد تک روشن ہوجائیں گے۔ لیکن بڑی تعداد میں ہتھیاروں کی تنصیب ماسکو کو امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے مفادات کے خلاف ردعمل پر مجبور کردے گی۔
روس کے بلاسٹک میزائلوں کے بہتر توڑ کے لیے امریکہ اور اس کے اتحادی بلاسٹک میزائل دفاعی نظام کی ری پوزیشنگ ماسکو کے لیے مشکلات میں اضافہ کردے گی لیکن یہ بالآخر بہترین مؤثر آپشن ہوگا کیونکہ روس متعدد میزائلوں کو اپ گریڈ کرچکا ہے۔ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے اہداف خطرہ پر رہیں گے۔
رپورٹ میں تجویز دی گئی ہے کہ کم نگہداشت ،طویل رینج کے بمبار یا ماسکو کے لیے پہلے سے پریشان کن قسم کے طیاروں کی تیاری کو فروغ دیا جاۓ۔ بڑی تعداد میں خود کار اور ریموٹ کنٹرول حملہ آور جہاز بنانے پر بھی زور دیا گیا ہے۔
رینڈ کے ماہرین نے اس نکتے کو بھی اجاگر کیا ہے کہ ان آپشنز کی وجہ سے اسلحہ کی دوڑ کے مقابلے کا بہت بڑاخطرہ ہے جس کی وجہ سے امریکہ کو اپنی حکمت عملی کے لیے بہت بڑا خمیازہ ادا کرنا پڑ سکتا ہے۔ مثال کے طور پر بلاسٹک میزائل دفاعی نظام اور خلائی ہتھیاروں کی سرمایہ کاری سے ماسکو خبردار ہوجاۓ گا۔ اور وہ اپنے دفاع کے لیے ایسے اقدامات اٹھا سکتا ہے جو امریکی دفاعی نظاموں سے سستے اور مہلک ثابت ہوسکتے ہیں۔
سمندری تصادم کے حوالے سے رینڈ نے تجویز دی ہے روس کی وجہ سے یہ زونز امریکہ اور اس کی اتحادی کی بحری افواج کے لیے خطرناک ہو سکتے ہیں۔ غالباً یہ فرض کیا جاسکتا ہے کہ بالٹک سمندر، آرکیٹک اور بحیرہ اسود محفوظ ہیں۔ رپورٹ میں روس کی جوہری آبدوزوں پر حملے کے لیے لئے نئے اور جدید ہتھیاروں پر سرمایہ کاری کابھی رپورٹ میں ذکر کیا گیا ہے۔ اور جوہری تکڑی کے لیے امریکی آبدوزوں کے فلیٹ میں اضافے کو بہترین قرار دیا گیا ہے۔ کریمیا میں روس کی دفاعی توسیع کے پیش نظر رپورٹ میں نیٹو کو تجویز دی گئی ہے کہ وہ طویل رینج اور اینٹی شپ میزائلوں کو بحیرہ اسود میں نصب کرکے روس مخالف حکمت عملی مرتب کرے۔
خشکی کے حوالے سے رپورٹ کے مصنفین کا کہنا ہے کہ یورپ کے نیٹو فوجی دستوں کو براہ راست روس کی سرحدوں پر تعنیات کیا جاۓ۔انہوں نے روس کو واضح پیغام دینے کے لیے یورپ میں نیٹو کے فوجی دستوں کی بڑے پیمانے پر مشقوں پر بھی زور دیا ہے۔ ثانوی رینج کے میزائلوں کو ڈیولپ کرنے کا آپشن بھی دیا گیا ہے تاہم ہم یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس نظام کی تنصیب سے روس کو اپنے میزائل نظام کو اپ گریڈ کرنے کا بہانہ ملے گا۔ حتمی طور پر رپورٹ میں روس کے ہوائی دفاعی نظام کے توڑ کے لیے جدید ہتھیاروں کی لیزر ٹیکنالوجی پر سرمایہ کاری کی بھی تجویز دی گئی۔
جیسا کہ دیکھا جا سکتا ہے کہ یہ تمام چار سیکشن ایک دوسرے سے مکمل طور پر جدا گانہ ہیں۔ پینٹاگون پہلے سے ہی گذشتہ چند سالوں سے تیسری متوازی حکمت عملی کے طور پر ان جد توں پر کام کر رہا ہے۔ موجودہ اور نیا بجٹ غمازی کرتا ہے کہ امریکہ اپنی فوجی طاقت میں اضافے کو جاری رکھے گا۔
امریکی فیصلہ سازوں کی مشاورتی دستاویزات اور رینڈ ماہرین کی یہ رپورٹ شاہد ہے کہ امریکہ روس کے خلاف بہت بڑی مہم جوئی کی منصوبہ بندی کا خواہاں ہے۔ تاہم حیران کن طور پر پر یہ سفارشات خصوصی طور پر فوجی سیکشن کی سفارشات اشارہ دیتی ہیں کہ امریکہ روس کے خلاف جنگ کی تیاری کر رہا ہے۔
بڑے اطمینان کے ساتھ کہا گیا ہے کہ کس طریقے سے امریکہ ہتھیاروں کے موجودہ معاہدوں ، نیٹو اور یوکرائن کو روس کے خلاف جنگ میں استعمال کر سکتا ہے خصوصی طور پر خشکی اور بحیرہ اسود کے تھیٹر پر کیسے وہ روس کے خلاف فوجی آپریشن کے آپشن بروۓ کار لا سکتا ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اپریل 2019 سے پہلے اس رپورٹ کے شائع ہوتے ہی امریکی پالیسی ساز مراکز نےان سفارشات کو منظور کر لیا تھا۔ اب دیے گئے ان تناظر پر عمل درآمد کی نگرانی اور ان کے توڑ کے لیے مناسب اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔