سربیا نے کسوو کے نقصان کو تسلیم کرلیا

29.05.2019

سربیا کے صدر الیگزینڈر ووجچ نے کسوو سے تعلقات سے متعلق پارلیمانی سیشن سے خطاب کرتے ہوئے مایوسانہ انداز میں کسوو کی علیحدگی کے اثرات پر بات کی۔ ان کا کہنا تھا کہ سربیا نے کسوو پر مکمل اختیار کھو دیا ہے اور بھاری ہزیمت کا سامنا کرتے ہوئے سربیا نے نہ صرف اپنا علاقہ کھویا ہے بلکہ قومی اور اقتصادی طور پر بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔

خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق انہوں نے کہا کہ ہمیں تسلیم کرلینا چاہیے کہ ہم شکست کھا چکے ہیں اور علاقہ بھی کھوچکے ہیں۔

تاریخ

کسوو نے 2008 میں آزادی کا اعلان کیا، یہ اعلان نیٹو کی جانب سے ہوائی حملوں کی ذریعے بلگریڈ سے کسوو کا کنٹرول حاصل کرنے کے 9 سال بعد کیا گیا۔ تاہم سربیا نے اس کی آزادی کو تسلیم نہ کیا اور اسے اپنا ہی علاقہ سمجھتے ہوئے عالمی اداروں میں اس کی رکنیت سازی کو روکے رکھا۔ تقریباً 10 سال سے زائد عرصے تک سربوں کے درمیان کسوو کی آزادی کے موضوع پر ہی پابندی تھی کیونکہ سرب کسوو کو اپنا اٹوٹ انگ سمجھتے تھے۔

ستاروں کے درمیان بات چیت کا آغاز 2013 سے ہوا– یورپی یونین سے الحاق دونوں کی مشترکہ خواہش تھی اور اس مقصد کے لیے باہمی تعلقات کو استوار کرنا ضروری تھا۔ لیکن گزشتہ سال نومبر میں مذاکرات کا سلسلہ معطل ہوگیا جب پرسٹینا نے سربیا سے درآمد شدہ تمام اشیاء پر سو فیصد ٹیکس نافذ کر دیا جس سے سربیا کی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا تھا۔

کسوو کے حملے

لیکن بظاہر لگتا ہے کہ کسووکے احکام پہلے سے ہی انتظار میں تھے، ان کی ٹیکس پالیسی کچھ بھی نہیں تھی سوائے اس کے کہ وہ بلگریڈ کے لئے ایک اشارہ تھا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ فوری طور پرکسوو کی آزادی کو تسلیم کیا جائے۔

یوگوسلاویہ کی عوامی تاریخ کی ماہر اور سویت روسی تاریخ دان گسکوا ایلینا پریونیا اس صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتی ہیں کہ کسوو البانیںن مزید تحمل نہیں کرسکتے تھے اس لیے امریکی تعاون کے ساتھ انہوں نے طاقت کا استعمال شروع کردیا اور اس صبح انہوں نے ملک کے متعدد علاقوں پر حملہ آور ہوکر 13 سے 20 افراد کو قیدی بنا لیا (متعدد ذرائع کے مطابق)۔ یہ بلگریڈ کے لیے علامتی پیغام تھا کہ ہمیں فوری طور پر تسلیم کرو۔

الیگزینڈر ووجچ نے حملوں سے متعلق بات کرتے ہوئے کہا کہ کسوو کے خصوصی دستوں کا مقصد پولیس کی حفاظت کے بغیر متعدد علاقوں میں دراندازی تھا اور سربیا کی فوج اس کا جواب دینے کےلیے مکمل طور پر تیار تھی۔

روس کا ردعمل

روس کسوو کی صورتحال کا بغور جائزہ لے رہا تھا اور سربیا کو ہر ممکن تعاون فراہم کرنے کے لئے تیار تھا۔ بلگریڈ میں روسی سفارتخانے کے مطابق کوسو میں اقوام متحدہ کے عبوری انتظامی مشن کے ممبر اور روسی شہری میخائل کراسنوشکوو کو کسوو میں ہی حراست میں لے لیا گیا تھا۔ روس کی وزارتِ خارجہ کی سرکاری نمائندہ ماریہ زخارووا نے خصوصی دستوں کے حملوں کو دوسری اشتعال انگیزی قرار دیتے ہوئے کہا کہ طاقت کے ذریعے علاقوں پر قبضہ جمانے کی کوشش ہے۔ وزارت کی ویب سائٹ پر جاری ماریہ زخاروواکے بیان کے مطابق کسوو کا یہ سرکش رویہ یورپ اور امریکہ کی کئی سالوں کی مداخلت کا نتیجہ ہے۔

پیش بینی

اگر سربیا کی قیادت کسوو اور میتھوجیا کے معاملے پر یورپ اور البانیہ سے ریاعت برتتی ہے تو وہ خطے کو ہمشہ کے لیے کھو دے گی۔ لہذا یہ وقت سربیا کے راستے کے انتخاب کے لیے بہت اہم ہے۔

ووجچ کے حالیہ رویے کے کافی حدتک امکانات موجود تھے لیکن اگر سرکاری طور پر بلگریڈ کی اس طرح کے معاٹ میں خلاف توقع اور اجنبیت برقرار رہی تو پھر روس سرب کے ساتھ تعاون کرنے کے قابل نہیں ہوگا۔

اس کا سب سے بہترین حل یہ ہے کہ سربیا روس کے ساتھ دفاعی تکنیکی تعاون کو اتنی وسعت دے کہ روسی فوج کی سربیا میں موجودگی کے امکانات بھی شامل ہوجائیں۔