اقتصادی جنگ = سرد جنگ ؟
اقتصادی جنگ = سرد جنگ ؟
چین کے خلاف امریکہ کی اقتصادی جنگ ایک دوسرے بڑے تنازعے کا پیش خیمہ ثابت ہو رہی ہے. امریکی کمپنی ایپل کی حریف سمجھی جانے والی چین کی سمارٹ فون بنانے والی سب سے بڑی کمپنی ہواوے اس وقت نشانے پر ہے۔ چین کی اس کمپنی کو بلیک لسٹ کرتے ہوئے امریکہ نے اس پر پابندی لگا دی ہے۔تجارتی کاروبار اس وقت ہی ممکن ہے اگر وائٹ ہاؤس کی جانب سے اس کی اجازت دی جائے لیکن اب اجازت کا ملنا بظاہر ناممکن نظر آتا ہے۔گوگل، بروڈ کام، Xilinx اور انٹل نے ہواوے کو خاموش کر دیا ہے۔ لیکن کیا یہاں چینی واقعی شکست والی طرف ہیں؟
اختلاف کا آغاز ہواوے کے چیف فنانشل آفیسر مینگ وانزو کی دسمبر میں گرفتاری سے ہوا۔ ہواوے کے بانی کی بیٹی پر امریکی ٹیکنالوجی ایران کو بیچنے کا الزام لگایا گیا اور اس اس طرح اسے بیرونی دشمن تصور کر لیا گیا۔چینیوں کو اس کی وضاحتیں بھی نہ دی گئیں۔ گلوبل ٹائمز نے اس گرفتاری کو ہواوے کے خلاف ایک اہم قدم کے طور پر دیکھا۔
ٹرمپ نے اچھی نیت کے ساتھ ان سخت اقدامات کی وضاحت کی۔ بہت سے لوگوں کی جانب سے پہلے سے ہی یہ تجویز دی گئی کہ ہواوے اور زیڈ ٹی ای چین کی خصوصی فوج کے شراکت دار ہیں جو کہ امریکی شہریوں کا نجی ڈیٹا اکٹھا کرتے ہیں۔صدر نے اگست 2018 میں خود ہی قومی دفاع کے اختیار کو بڑھاتے ہوئے ان دونوں کمپنیوں کے آلات کی خریداری اور استعمال پر پر پابندی لگا دی۔ ہواوے کے منیجرز اس پابندی کو غیر قانونی تصور کرتے ہوئے ہرممکن قانونی چارہ جوئی کر رہے ہیں۔ماہرین کے مطابق اس کیس کی سماعت 19 ستمبر کو ہونی ہے تاہم اس میں کچھ ماہ لگ سکتے ہیں۔
اگر چینی درست ثابت ہوئے تو ہواوے کو بلیک لسٹ سے نکال دیا جائے گا اور اسے امریکہ میں کاروبار کی اجازت ہوگی۔ اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وائٹ ہاؤس کہاں تک قانونی جنگ لڑتا ہے۔ ہواوے کے منیجرز نے متعدد بار اپنے امریکی شراکت داروں کے ساتھ یونین کا ذکر کیا ہے۔اور پابندیوں سے متعلق ان کی ناپسندی پر زور دیا ہے۔اور جیسا کہ کہا گیا ہے کہ دونوں اطراف کے شراکت دار باہمی طور پر دوبارہ کام شروع کر سکتے ہیں۔
اگر امریکی درست ثابت ہوئے تو پھر چینیوں کو امریکی ٹیکنالوجیز کے متبادل کو دیکھنا ہوگا۔اس کا مطلب ہوگا کہ ہواوے گوگل ایپس استعمال نہیں کر سکتی یعنی کہ نہ ہی گوگل میپ, اور نہ ہی یو ٹیوب اور جی میل۔ ہواوے صارفین کے بزنس گروپ کے سربراہ رچرڈ یو نے مارچ میں جرمنی کے میڈیا "ڈائی ولٹ" کو انٹرویو دیتے ہوئے ذکر کیا تھا کہ تنازعے کی صورت میں کمپنی کو اپنا آپریٹنگ سسٹم "کیرن او ایس" مرتب کرنا ہوگا۔انہوں نے خواہش کااظہار کیا کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے کیونکہ گوگل اور مائیکروسافٹ کی شراکت داری ہواوے کے مفاد میں ہے۔
ہواوے ابھی تک عوامی جمہوریہ چین میں ڈرائیونگ سیٹ پر ہے۔ گھر میں تیار کردہ آپریٹنگ سسٹم، مزید ایپلیکیشنز کے انضمام اور فائیو جی نیٹ ورک کی وجہ سے ہواوے آنے والے سالوں میں چین کی ٹیکنالوجیکل ترقی کی تشکیل کرے گی۔ دوسرے ممالک ہواوے کی مصنوعات کو خریدتے ہیں یا نہیں اس کا انحصار آنے والے سسٹم کی پائیداری پر ہے۔ ایسا بھی ہو سکتا ہے ہے کہ چین سے چھٹکارا لا پا نے کی امریکی کوشش الٹا امریکہ کے لیے نقصان دے ثابت ہو سکتی ہے جیسا کہ عالمی کاروبار میں میں ایپل کی پرسنٹیج کافی حد تک نیچے گر گئی ہے۔
سی این این کے تخمینے کے مطابق چینی کاروبار کو منقطع کرنے کی وجہ سے امریکہ کو 11 ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔ممکنہ نقصانات سے خوفزدہ ہوکر کر وائٹ ہاؤس نے ہواوے کو عارضی طور پر 90 دن کا لائسنس جاری کیا ہے کہ وہ پہلے سے موجود مصنوعات کو اپ ڈیٹ کرنے کے لیے تمام ضروری آلات خرید سکتا ہے لیکن نئی مصنوعات کی پیداوار کی ہرگز اجازت نہ ہوگی۔ اس سے امریکی کمپنیوں کو موقع دیا گیا ہے کہ جو کچھ انہوں نے شروع کیا تھا اس کو ختم کر سکیں اور اقتصادی توازن پیدا کرنے کے لیے نئے کاروباری شراکت داروں کو تلاش کر سکیں۔
چین کے لوگوں نے بھی اس سے دور رہنے سے انکار کرتے ہوئے ایپل کا بائیکاٹ کیا۔ مکڈونلڈ اور کے ایف سی کو بھی ترک کر دیا۔ چینیوں کے اس رویے نے امریکہ کے مالیاتی شعبے کو سنگین خطرات سے دوچار کر دیا ہے۔ تاہم کچھ منیجرز مختلف ریاستوں میں آئی فون کی خریداری کو دیکھ رہے ہیں لیکن چینیوں نے اس پر ہرگز اعتراض نہیں کیا۔ اس کا مطلب ہے کہ ہواوے نے گھریلو معیشت میں کچھ بھی نہیں کھویا اور غالباً انہیں اس سے فائدہ ہوا ہے۔لیکن سوال یہ ہے کہ وہ بیرونی تجارت کی پالیسی کو کیسے اپناتے ہیں۔
امریکہ کی جانب سے فائیو جی کی انسٹالمنٹ سے سے دنیا کو منفی نتائج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ امریکی ماہر اقتصادیات جیفری سایک نے گلوبل ٹائمز کو بتایا کہ یہ قانون کی بین الاقوامی حکمرانی کی خلاف ورزی ہے اور اس سے چین کی حوصلہ افزائی ہوئی ہے کہ وہ عالمی تجارتی ادارے، یورپی یونین اور اے یو سے مدد حاصل کرسکتا ہے۔ اگرچہ ہواوے کی سی ای او رن ژنگفی فائیو جی کے وارد نہ ہونے کی کوئی وجہ نہیں دیکھتے اور ان کو یقین ہے کہ ہواوے، ایپل اور سیمسنگ کے ہمراہ لیڈر شپ کو قائم رکھے گی۔