لاوروو طالبان مذاکرات : اہم نتائج
سرگئی لاوروو اور " طالبان" دہشت گرد گروپ کے حکام (روس میں 2003 سے اس پر پابندی ہے) کے درمیان ملاقات سوشل میڈیا پر مقبول ترین موضوع رہا۔ اسلامی گروپ نے 2000کی دہائی میں چیچنیا کی آزادی کی حمایت کی اور روس کے خلاف جہاد اعلان کیا۔ جبکہ روس کی وزارت دفاع نے متعدد مرتبہ افغانستان میں ان کے ہیڈکوارٹر پر حافظتی فوجی اقدام کے طور پر بھر پورحملے کی دھمکی دی۔
2017 میں لاوروو نے طالبان کی مالی اور فوجی حمایت کی تردید کرتے ہوئے زوردیا کہ جب روس یا پڑوسی ممالک خطرے میں ہونگے یا جب حتمی طور پر طالبان مذاکرات کے لیے تیار ہونگے تو روس ان سے رابطہ کرے گا۔ بظاہر تو یہی لگتا ہے ان سے سفارتی بات چیت کے امکانات موجود نہیں لیکن یہ ممکن ہے کہ روس "امن اردوں" کے نام پر اپنے فوجی مقاصد کو چھپا رہا ہو۔
افغانستان کے ساتھ صد سالہ سفارتی تعلقات کے جشن کے موقع پر روس نے طالبان کے ساتھ تعلق کو ایک نئی جہت دی ہے۔ لاوروو کے لیے اہم نقطہ افغانستان میں جنگ بندی ہے اور اسی وجہ سے تین دن طالبان سے مزاکرات کیے گئے۔ طالبان کا دعویٰ ہے کہ طالبان کے لیے سب سے زیادہ اہم یہ ہے کہ کس طور پر روس کے کرادر کو بڑھایا جاۓ تاکہ واشنگٹن کو افغانستان سے افواج کے انخلا پر مجبور کیا جاسکے۔ جب تک ایسا نہیں ہوتا اس وقت تک موجودہ طالبان حکومت سے مزاکرات ممکن نہیں۔ افغانستان میں روس کے سفیر عبدالقیوم بھی بطور مہمان ان مزاکرات میں موجودہ حکومت کے نمائندے کے طور پر شریک ہوئے۔
تاہم قطر میں طالبان کے ترجمان محمد سہیل شاہین نے جمعرات کو پریس کانفرنس کرتے ہوئے افغانستان میں فوری طور پر جنگ بندی پر زور دیا ان کا کہنا تھا کہ اس سے پورے خطے میں مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان کے بحران کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کی ضرورت ہے اور اس کے لیے امریکا پر دباؤ ڈالا جائے کہ وہ افغانستان سے اپنی فوج کا فوری انخلا ممکن بنائے۔ ابھی تک غیر یقینی کی صورت حال ہے کیونکہ کوئی نہیں پتا کہ کب امریکی فوجیوں کا افغانستان سے انخلا ہو۔ غیر ملکی فوجیوں کے انخلا کے بعد ہی طالبان موجودہ حکومت کے ساتھ تین طرفہ مذاکرات کے لیے تیار ہوں گے اور پھر حکومت میں طالبان کی مکمل نمائندگی اور ان کی نشستیں ہوں گی۔
کچھ عرصہ پہلے 2015 میں صدر روس کے افغانستان کے لیے خصوصی نمائندے ضمیر کابلوف نے "ویزگلیڈ" اخبار کو بتایا تھا کہ روس اور طالبان میں بہت زیادہ چیزیں مشترک ہیں بشمول داعش کے، دونوں داعش کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں اور یہ داعش خطے کے لئے بہت بڑا خطرہ بنتی جارہی ہے۔ اپنی تعارفی تقریر میں لاوروو نے منشیات کے کاروبار کے خلاف لڑنے پر زور دیا۔
طالبان کریملن کا تیسری دفعہ دورہ کر رہے ہیں۔وہ اس سے پہلے نومبر2018 اور فروری 2019 میں امن مذاکرات کے لیے ماسکو میں تھے۔ اس ملاقات کی انٹرنیٹ پر بہت زیادہ دھوم رہی اور یہ حقیقت میں جنگ بندی کی طرف ایک اور قدم ہے۔ اگرچہ طالبان پہلے ایسا کرنے کو تیار نہیں تھے۔
ان مذاکرات کا حتمی نتیجہ یہ نکلا کہ طالبان نے وعدہ کیا کہ وہ روس اور اس کے پڑوسی ممالک پر حملہ نہیں کریں گے۔مزید مذاکرات کے لئے تاریخ طے نہیں ہوئی لیکن یہ مذاکرات انتہائی اہمیت کے حامل تھے۔
روس کے وسیع تر اختیارات کے باعث، یہ بات ممکن ہوئی ہے کہ وہ دہشتگرد گروہ جو ماضی میں مسلسل طاقت پکڑنے کے باعث امریکہ سے برسر پیکار رہا ہے اب اسے ایک زیادہ طاقتور اتحاد کے زیر سایہ مذاکرات کی میز پر اکھٹا کیا گیا ہے۔جیسا کہ روس اس پورے معاملے میں جنگ بندی کے لئے متحرک ہے اس نے طالبان کے ساتھ اپنے تعلقات کو محض ایک مذہبی تصادم سے ہٹ کرایک نئی سمت دی ہے.