صدر روس کا فنانشل ٹائمز کو دیا گیا انٹرویو
جی 20 کے موقع پر ولادیمیر پوٹن نے فنانشل ٹائمز کے ایڈیٹر لیونیل باربر اور ماسکو میں اس کے بیورچیف ہنری فوے سے گفتگو کی۔
لیونل باربر: جناب صدر, آپ جی 20 کے اجلاس میں بطور سینئر سربراہ ریاست شرکت کر رہے ہیں۔کسی کو بھی اس جی ٹوئنٹی اور جی سیون کے بین الاقوامی اجلاسوں کا اتنا تجربہ نہیں جتنا آپ کو ہے کیونکہ پچھلے بیس سال سے آپ ان اجلاس میں روس کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ جی ٹوئنٹی کے ایجنڈے پر گفتگو کرنے سے پہلے آپ کو کیا امید ہے کہ اس اجلاس سے کیا حاصل ہو گا کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ امریکہ اور چین کے درمیان اقتصادی جنگ عروج پر ہے اور خلیج فارس بھی تنازعے کی زدمیں ہے۔ میں آپ کا بہت شکر گزار ہوں گا کہ اگر آپ ہمیں بتائیں گے کہ گزشتہ 20 سالوں میں اپنے دور اقتدارمیں آپ نے دنیا کو کیسے تبدیل ہوتے ہوئے دیکھا۔
صدر روس ولادی میر پیوٹن: پہلے میں آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ان بیس سالوں کے دوارن میں اقتدار میں نہیں رہا جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ میں چار سال کے لیے وزیراعظم تھا اور یہ وفاق روس کی سربراہی کا اعلیٰ ترین عہدہ نہیں۔ لیکن اس کے باوجود میں بہت زیادہ عرصے سے حکومت اور روس کی سربراہی کر رہا ہوں اس لیے میں سمجھ سکتا ہوں کہ کیا تبدیل ہوا اور کیسے ہوا۔ آپ نے اقتصادی جنگوں اور خلیج فارس سے متعلق ذکر کیا۔میں بہت محتاط طور پر کہتا ہوں کہ صورتحال میں بہتری نہیں آئی لیکن میں ایک خاص حد تک پرامید بھی ہوں۔ لیکن واضح طور پر یہی کہوں گا کہ صورتحال انتہائی ڈرامائی اور دھماکا خیز ہے۔
لیونیل باربر: کیا آپ کو یقین ہے کہ دنیا شکست و ریخت کا شکار ہے؟
ولادی میر پیوٹن: بے شک, کیونکہ سرد جنگ کے دوران بری چیز سرد جنگ ہی تھی۔ یہ سچ ہے۔ لیکن کم سے کم اس کے دوران کچھ ضابطے موجود تھے جن پر بین الاقوامی مواصلات کے تمام شرکا نے عمل کیا یا ان پر کاربند رہنے کی کوشش کی۔ لیکن اب ایسا لگتا ہے کہ کوئی بھی اصول نہیں۔ اس وجہ سے اب دنیا بہت زیادہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے اور اب اس کے مستقبل کی زیادہ پیشن گوئی بھی نہیں کی جاسکتی، جو سب زیادہ اہم اور افسوسناک ہے۔
لیونیل باربر: دنیا بغیر اصولوں کے، ٹو ٹ پھوٹ اور اس کے لین دین پر ہم دوبارہ آئیں گے لیکن پہلے یہ بتائیں کہ دوسرے فریقین سے تعلقات کے تناظر میں اوساکا سے آپ کا کیا حاصل ہوگا۔ اس اجلاس کے لیے آپ کے اہم مقاصد کیا ہیں؟
ولادی میر پیوٹن: جی ٹوئنٹی کے دوسرے شرکا کی طرح میری بھی یہی رائے ہے کہ یہ موجودہ دور کا بین الاقوامی عالمی اقتصادی ترقی کا ایک اہم فورم ہے۔ میں یہ چاہتا ہوں کہ جی ٹوئنٹی کے تمام ممبر ممالک کم سے کم اپنے ارادوں کو ہی مصمم کرلیں تاکہ کچھ قواعد کو مرتب کر لیا جاۓ اور پھر سب ان پر کاربند ہوں، علاوہ ازیں عالمی اقتصادی و تجارتی اداروں کو مظبوط کرنے کے لئے سب کو مل کر یقینی دہانی ہوگی۔
"جی ٹوئنٹی اجلاس کے مرکزی موضوعات کی تفصیلات موجود ہیں۔ ہم یقینی طور پر جاپان کی صدارت کی حمایت کرتے ہیں۔ جاپانی دوستوں کی جانب سے جدید ٹیکنالوجی، معلوماتی دنیا اور معلوماتی اقتصادیات کی طرف توجہ مبذول کرانا بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ ہم ان کی مکمل تائید کرتے ہیں اور اس بابت ہونے والے تمام مباحثوں میں شریک ہونگے۔ اگرچہ موجودہ حالات کے کے تناظر میں اس سے کسی حتمی نتیجہ خیر یا بڑے فیصلے کی توقع کرنا بہت ہی مشکل ہے۔ بہر حال اجلاس کے عمومی مباحثوں اور باہمی ملاقاتوں میں امید کی کرن موجود ہے کہ ہم مثبت پیش رفت کے تحت موجود اختلافات کو زائل کرنے کے قابل ہونگے۔ "
لیونیل باربر: آپ کی اوساکا میں محمد بن سلمان سے ملاقات ہے کیا ہم تیل کی پیداوار کے موجودہ معاہدے کی توسیع کی توقع کرسکتے ہیں؟
ولادی میر پیوٹن: جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ سب سے زیادہ تیل کی پیداوار کی باجود روس اوپیک کا ممبر نہیں۔ مجھے یقین ہے کہ ہماری تیل کی روزانہ کی پیدوار تقریباً 11.3 ملین بیرل ہے۔ اگرچہ امریکہ پہلے سے ہی ہم سے آگے جاچکا ہے، تاہم ہمیں یقین ہے کہ سعودی عرب اور اوپیک کے ساتھ ہمارے پیدواری استحکام کے معاہدے نے منڈی کے استحکام اور اس کی پیشنگوئی پر مثبت اثر مرتب کیے ہیں۔
مجھے یقین کہ اس کیس میں توانائی کے پیدواری ممالک اور اس کے صارفین دونوں کی دلچسپی منڈی کے استحکام میں ہے کیونکہ موجودہ صورتحال میں استحکام مختصر سپلائی کی وجہ سے ہے۔ اور بلا شک و شبہ سعودی عرب اور اوپیک کے ساتھ ہمارا معاہدے نے استحکام کو جلا بخشی ہے۔
جبکہ اس معاہدے کی توسیع سے متعلق آپ کو آنے والے چند دنوں میں پتہ چل جائے گا کیونکہ اس انٹرویو کے بعد اس معاملے پر ہماری تیل کی بڑی کمپنیوں کے اعلی عہدے داروں اور حکومتی ارکان سے میری ملاقات طے ہے۔
لیونیل باربر: وہ تھوڑے بہت مایوس ہیں۔ وہ مزید پیدوار چاہتے ہیں۔ کیا یہ درست ہے؟
ولادی میر پیوٹن: وہ سمارٹ پالیسی رکھتے ہیں۔ یہ صرف پیداواری اضافے سے متعلق نہیں اگرچے تیل کی بڑی کمپنیوں کے لیے یہ پیداواری اصافہ بہت بڑا جزو ہے۔ یہ سب کچھ منڈی کی صورتحال سے متعلق ہے۔ انہوں نے صورتحال کے ساتھ ساتھ اپنے منافع اور اپنے اخراجات کا تفصیلی جائزہ لیا ہے۔ یقیناً وہ صنعت کی ترویج، بروقت سرمایہ کاری، جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کے بارے سوچ رہے ہیں تاکہ اس صنعت کو بڑھوتری دیتے ہوئے سرمایہ کاروں کے لیے مزید پرکشش بنایا جاسکے۔
"تاہم قیمتوں میں ڈرامائی اتار چڑھاؤ سے مارکیٹ مستحکم نہیں رہے گی اور اس سے سرمایہ کاری کی بھی حوصلہ افزائی نہیں ہوگی۔"
لیونل باربر: جناب صدر، آپ امریکہ کے چار صدور کو جانچ چکے ہیں اور شاید اب یہ پانچواں صدر ہے جس سے آپ کو ملنے کا براہ راست تجربہ ہے تو ٹرمپ کیسے مختلف ہے؟
ولادی میر پیوٹن: ہم سب مختلف ہیں۔ کبھی دو شخص ایک جیسے نہیں ہوسکتے بلکہ ایسے جیسے انگلیوں کے نشانات ایک جیسے نہیں ہوتے۔ ہر کسی کی اپنی خوبیاں ہوتی ہیں۔ ان کے اثرات ووٹرز پر چھوڑ دیں۔ مجموعی طور پر میں نے امریکہ کے تمام رہنماؤں کے ساتھ اچھی نوعیت کے بہتر تعلقات قائم رکھے ہیں۔ مجھے ان میں سے کچھ کے ساتھ متحرک تعلقات کا موقع ملا۔
پہلے امریکی صدر جن سے مجھے رابطے کا موقع ملا وہ بل کلنٹن تھے۔ عمومی طور پر میں اس کو مثبت تجربے کے طور پر دیکھتا ہوں۔ ہم نے مختصر وقت کےلیے کافی حدتک مستحکم اور تجارتی تعلقات قائم کرلیے کیونکہ اس کی مدت صدارت ختم ہونے کے قریب تھی۔ اور میں صرف جوان صدر تھا جس نے ابھی اپنے کام کا آغاز کیا تھا۔ میں مسلسل یاد کرتا ہوں کہ اس نے کیسے میرے ساتھ پارٹنر جیسے تعلقات قائم کیے تھے۔ میں اس کے لیے اس کا شکر گزار رہوں گا۔
"مختلف ادوار میں ہمیں متعدد مسائل دیگر تمام ساتھیوں کے ساتھ مل کر حل کرنے پڑے۔ بدقسمتی سے روس، امریکہ اور اور پوری دینا کے لیے متعدد اہم پہلو سے متعلق ہم نے گفت و شنید کی لیکن کچھ معاملات پر ہم متفق نہ ہوسکے۔ مثال کے طور پر ان میں انسداد بلاسٹک میزائل معاہدے سے امریکہ کا یک طرفہ طور پر باہر ہونا شامل ہے۔ میں ابھی تک قائل ہوں کہ یہ مکمل طور پر بین الاقوامی تحفظاتی نظام کی بنیاد تھا۔ "
ہم نے بڑے عرصے تک اس معاملے پر مذاکرات کیے، متعدد حل تجویز کیے اور ان کی دلیلیں دیں۔ میں نے ہر موقع پر مکمل توانائی سے امریکی پارٹنرز کو قائل کرنے کی کوشش کی معاہدے سے انخلا نہ کرو۔ اور اگر امریکی سائیڈ ابھی بھی اس معاہدے سے انخلا چاہتی ہے تو اس کو طویل تاریخی عرصے تک عالمی تحفظ کی ضمانت دینے ہوگی۔ میں نے عوامی سطح پر اس سے متعلق بات کی اور یہ تجویز دی۔ میں نے ایسا اس لیے کیا کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ یہ معاملہ انتہائی اہم ہے۔ میں نے تجویز دی کہ ہمیں دفاعی میزائل منصوبوں پر مشترکہ طور پر جس میں امریکہ ، روس اور یورپ شامل ہو مل کر کام کرنا چاہیے۔ اس میں مشترکہ معاہدے کے لیے خصوصی پرامیٹرز کو مقرر کرنا، خطرناک میزائل تکنیکوں کے خطرات کا ادارک کرنا، جدید ٹیکنالوجی کے تصور کا تبادلہ اور فیصلہ سازی کے میکانزم کی وضاحت وغیرہ ہیں ۔ یہ مخصوص تجاویز تھیں۔
"میں قائل ہوں کہ اگر ہمارے امریکی پارٹنرز اس تجویز کو قبول کرتے تو دینا آج بالکل مختلف ہوتی۔ شومی قسمت کہ ایسا نہ ہوسکا۔ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ حالات بالکل مختلف سمت کی غمازی کررہے ہیں; نئے ہتھیار اور کٹنگ ایج فوجی ٹیکنالوجی ابھر کر سامنے آرہی ہے۔ یہ ہمارا انتخاب نہیں۔ لیکن آج ہمیں کم سے کم وہ سب کچھ کرنا چاہیے کہ حالات خراب نہ ہوں۔ "
لیونل باربر: جناب صدر، آپ تاریخ کے طالب علم ہیں۔ آپ کی ہنری کسنجر سے متعدد گھنٹے گفتگو رہی ہے۔ آپ نے یقینی طور پر اس کی ورلڈ آرڈر کتاب بھی پڑھی ہوگی۔ ٹرمپ کے ساتھ، ہم کچھ نیا دیکھ رہے ہیں، کچھ زیادہ ٹرانزیکشنل۔ وہ وہ اتحادوں اور یورپ کے اتحادیوں کے لیے بہت اہم ہے۔ کیا ایسا کچھ ہے کہ اس سے روس کو فائدہ ملے؟
ولادی میر پوٹین: بہتر تو یہ ہوتا کہ آپ پوچھتے کہ اس کیس میں امریکہ کے لیے کیا فائدے مند ہے۔ ٹرمپ پیشہ ور سیاستدان نہیں۔ اس کا امریکی مفادات اور دنیا کے بارے میں مختلف نقطہ نظر ہے۔ مسائل کو حل کرنے کے اس کے مختلف طریقوں کو میں تسلیم نہیں کرتا۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ میں کیا سوچتا ہوں؟ میں اسے ایک باصلاحیت شخص سمجھتا ہوں وہ بہت بہتر جانتا ہے کہ اس کے ووٹرز کی اس سے کیا توقعات ہیں۔
روس کو موردالزام ٹھہرایا گیا، یہ اور بھی تعجب خیز ہے کہ مولر کی رپورٹ کے باوجود بھی ابھی تک امریکی انتخابات میں مداخلت کا الزام روس پر دھرا جارہا ہے۔ حقیقت میں کیا ہوا؟ ٹرمپ نے اپنے مخالفین کو رویے کو بھانپ کر امریکی معاشرے میں ہونے والی تبدیلیوں سے فایدہ اٹھایا۔
آپ اور میں یہاں جی ٹوئینٹی اجلاس سے متعلق بات کرنے کے لیے اکٹھے ہوۓ ہیں۔ یہ ایک اقتصادی فورم ہے۔ ہمیں بلاشک گلوبلائزیشن، بین الاقوامی تجارت اور عالمی فنانس پر بات کرنی ہے۔
کیا کسی نے سوچا کہ 1990 سے پچھلے 25 سال تک کیا ڈویلپمنٹ ہوئی اور کس نے اس میں حصہ لیا، گلوبلائزیشن سے کیا مفاد لیے گئے اور کس کو اس سے فائدہ ہوا؟
چین نے خصوصی طور پر گلوبلائزیشن کو استعمال کرنے ہوۓ لاکھوں چینیوں کو غربت سے باہر نکالا۔
امریکہ میں کیا ہوا، اور کیسے ہوا؟ امریکہ میں امریکہ کی کمپنیاں، ان کے منیجرز، شراکت دار اور پارٹنرز نے اس سے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ مڈل کلاس مشکل سے ہی فائدہ اٹھاسکی۔ امریکہ میں گھروں کے لیے ان کو ادائیگی کرنی پڑی (ہم روس میں حقیقی معیشت جس پر حکومت کو توجہ دینے کی ضرورت ہے سے متعلق آخر میں بات کریں گے)۔ گلوبلائزیشن مڈل کلاس کے مفاد میں نہ تھی; پہلے سے تقسیم شدہ پائی میں ان کے لیے کچھ نہ تھا۔
ٹرمپ کی ٹیم کو اس کا گہرائی سے اور واضح طور پر ادراک تھا۔ اس لیے انہوں نے اس اپنی انتخابی مہم میں استعمال کیا۔ ٹرمپ کی جیت کے پیچھے بیرونی مداخلت کی بجائے یہ وجوہات تھیں۔ اس لیے ہم یہاں اس پر گفتگو کررہے ہیں جب کہ یہ بین الاقوامی اقتصادیت کے زمرے میں آتا ہے۔
مجھے یقین ہے کہ یہ ان کی بظاہر غیرمعمولی معاشی فیصلوں کی وضاحت ہے اور اس سے اس کے ساتھیوں اور اتحادیوں سے تعلقات کی بھی وضاحت ہوتی ہے۔ ان کو یقین ہے کہ گزشتہ دہائی میں امریکہ میں وسائل کی تقسیم اور گلوبلائزیشن کے مفادات غیر منصفانہ تھے۔
میں یہاں گفتگو منصفانہ اور غیر منصفانہ پر نہیں کررہا، اور میں یہ بھی نہیں کہوں گا وہ صحیح کررہے ہیں یا غلط۔ جیسا کہ آپ نے مجھ سے پوچھا، میں تو خود اس کے مقاصد کو سمجھنا چاہتا ہوں۔ شاید اس سے اس کے غیر معمولی رویے کی وضاحت ہوسکے۔
لیونیل باربر: میں دو بارہ روس کی معشیت پر واپس آنا چاہتا ہوں۔ لیکن آپ نے جو کچھ کہا وہ انتہائی دلچسپ ہے۔ یہاں آپ، صدر روس، چینی صدر شی کے ساتھ مل کر گلوبلائزیشن کا دفاع کررہے ہیں جبکہ ٹرمپ سب سے پہلے امریکہ کے ساتھ گلوبلائزیشن پر حملہ آور ہے۔ آپ اس بعد از قیاس (پیراڈکس) کی کیسے وضاحت کریں گے؟
ولادی میر پیوٹن: مجھے نہیں لگتا کہ "امریکہ سب سے پہلے " کی اس کی خواہش بعد از قیاس ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ روس سب سے پہلے ہو اور اسے بعد از قیاس نہ لیا جائے; یہاں کچھ بھی غیر معمولی نہیں۔ میں پہلے بھی بیان کرچکا ہوں کہ حقیقت یہ ہے کہ وہ گلوبلائزیشن کے کچھ منشور پر حملہ آور ہے۔ بظاہر لگتا ہے کہ اس یقین ہے کہ گلوبلائزیشن کے نتائج امریکہ کے لیے مزید بہتر ہوسکتے ہیں کیونکہ پہلے سے موجود گلوبلائزیشن کے نتائج امریکہ کے لیے بہتر ثابت نہیں ہورہے، اس لیے وہ گلوبلائزیشن کے کچھ مخصوص عوامل کے خلاف مہم جوئی کا آغاز کیا ہے۔ اس پر بین الاقوامی اقتصادی شراکت داروں اور اسے کے اتحادیوں سمیت ہر کسی کے تحفظات ہیں۔
لیونیل باربر: جانب صدر, آپ کی صدر شی کے ساتھ کئی ملاقاتیں ہوچکی ہیں، یقینی طور پر روس اور چین کو بہت زیادہ قریب آنے کا موقع ملا ہے۔ کیا آپ چینی ٹوکری میں بہت سے انڈے ڈال رہے پیں؟ کیونکہ آپ کی قیادت میں روس کی خارجہ پالیسی میں ہر کیسی سے بات کرنے کی فضیلت موجود ہے.
ولادی میر پیوٹن: پہلا نقطہ تو یہ ہے کہ ہمارے پاس کافی انڈے موجود ہیں لیکن اتنی ٹوکریاں نہیں جن میں ہم یہ انڈے رکھ سکیں۔
دوسرا یہ کہ ہم ہمیشہ خطرات کا جائزہ لیتے ہیں۔
تیسرا یہ کہ چین کے ساتھ ہمارے تعلقات سیاسی یا کسی اور مقصد کو پورا کرنے کے لیے وقتی نہیں۔ میں یہ بتانا چاہتا ہوں اور اگر یاداشت میں ہو تو امریکہ اور چین کے درمیان موجودہ اقتصادی اختلاف اور حلم و مروت سے بہت پہلے ، 2001 میں ہمارا چین کے ساتھ دوستی کا عہد و پیمان ہوا تھا۔
"ہمیں کسی بھی چیز میں شامل ہونے کی ضرورت نہیں، اور ہم نے کسی کے بھی خلاف اپنی پالیسی کو استعمال نہیں کیا۔ دراصل، روس اور چین کسی کے خلاف اپنی پالیسی استعمال نہیں کررہے ہیں۔ ہم مسلسل تعاون کو بڑھانے کےلئے اپنی منصوبہ بندی پر عمل کررہے ہیں۔ ہم 2001 سے ایسا کررہے ہیں اور ان منصوبوں پر مسلسل عملدرآمد کررہے ہیں۔"
ایک نظر ڈالیں وہاں پر کیا لکھا ہے. ہم نے ان معاہدوں کے فریم ورک سے تجاوز نہیں کیا۔یہاں کچھ بھی غیر معمولی نہیں، آپ چینی-روسی مصالحتی اثرات کو تلاش نہیں کرنا چاہیے۔ بلاشبہ ہم موجودہ عالمی ترقی کا ادارک رکھتے ہیں; مجودہ عالمی ایجنڈے کے متعدد معاملات پر ہم متفق ہیں جن میں عمومی تسلیم شدہ تجارتی قواعد سے متعلق ہمارے رویوں کی سمت، بین الاقوامی مالیاتی نظام، ادائیگیوں اور مسائل کے حل کے امور شامل ہیں۔
"جی ٹوئینٹی نے قابل قدر کردار ادا کیاہے۔ اس کے آغاز کے بعد سے جب 2008 میں مالیاتی بحران بڑھ گیا تو جی ٹوئینٹی نے عالمی مالیاتی نظام کے استحکام، عالمی تجارت کی ترویج اور اس کو مستحکم رکھنے کے لیے بہت سے مفید اقدامات کیے۔ میں عالمی ایجنڈے کے ٹیکس کے پہلو، بدعنوانی کے خلاف جنگ و دیگر سے متعلق بات کررہا ہوں۔ دونوں چین اور روس اس تصور پر کاربند ہیں۔
جی ٹوئینٹی نے بین الاقومی مالیاتی فنڈ اور عالمی بنک میں کوٹے کی وکالت سے بہت کچھ حاصل کیا ہے۔ روس اور چین دنوں اس نقطہ نظر میں شراکت دار ہیں۔ عالمی اقتصادی حصص میں ابھرتی ہوئی منڈیوں کے بے حد اضافہ کو شامل کرنا بہترین اور منصفانہ ہے اور ہم ابتدا سے ہی اس بابت آواز بلند کررہے ہیں۔ اور ہمیں خوشی ہے کہ عالمی تجارت میں تبدیلیاں اور ترقی کا تسلسل آگے بڑھ رہا ہے۔
پچھلے 25 سالوں میں جی 7 ممالک کی عالمی جی ڈی پی 58 فیصد سے 40 فیصد تک گری۔ اس کی بھی کسی طور پر بین الاقوامی اداروں میں عکاسی کی جاۓ۔ اس پر روس اور چین کی مشترکہ پوزیشن ہے۔ اور یہ منصفانہ ہے، اور اس سے متعلق کچھ خاص نہیں۔
ہاں، یہ سچ ہے کہ روس اور چین کے متعدد مفادات میں موافقت ہے۔ یہ وہی ہیں جو صدر شی جنپنگ کے ساتھ مسلسل روابط کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ یقیناً ہم ذاتی تعلقات میں بہت زیادہ گرمجوشی ہے اور یہ قدرتی ہے۔
"لہذا ہم اپنے مرکزی دھارے میں دوطرفہ ایجنڈے کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں، جسے 2001 میں تشکیل دیا گیا تھا، لیکن ہم عالمی ڈیویلپمنٹ پر سرعت رفتاری سے ردعمل دیتے ہیں۔ ہم اپنے دوطرفہ تعلقات کسی کے خلاف استعمال نہیں کرتے۔ ہم کسی کے خلاف نہیں لیکن ہم خود کے لیے ہیں۔ "
لیونیل باربر: میرے مطابق انڈوں کی یہ فراہمی بہت مضبوط ہے۔لیکن جناب صدر، سنجیدہ نقطہ یہ ہے کہ آپ گراہم علیسن کی کتاب The Thucydides's Trap سے واقف ہیں۔ غالب قوت اور ابھرتی طاقت امریکہ اور چین کے درمیان تناؤ یا فوجی تنازعات کے خدشات موجود ہیں۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ آپ کے وقت میں آپ، امریکہ اور چین کے درمیان کسی فوجی تنازعہ کا خدشہ ہے؟
ولادی میر پیوٹن: آپ جانتے ہیں کہ تاریخ انسانی فوجی تنازعات سے بھری پڑی ہے۔ لیکن اب جوہری ہتھیاروں کی موجودگی کی وجہ سے سے عالمی تنازعات کے خدشات کم ہوگئے ہیں کیونکہ اگر دو جوری ہتھیار رکھنے والی ریاستوں کے درمیان کوئی تنازعہ ہوتا ہے تو پھر اس سے پوری کرہ ارض کی آبادی بری طریقے سے متاثر ہوگی اور مجھے امید ہے کہ ایسا نہیں ہوگا۔
تاہم بلاشبہ ہمیں تسلیم کرنا پڑے گا کہ یہ نہ صرف چین کی صنعتی سبسڈیوں کی وجہ سے ہے اور نہ ہی یہ امریکہ کی ٹیریف پالیسی وجہ سے ہے۔ سب سے پہلے ہم مختلف ترقیاتی پلیٹ فارمز کے بارے میں بات کر رہی ہےتو ہمیں چین اور امریکہ میں بات کرنی چاہیے۔ وہ بہت مختلف ہیں اور آپ بطور مورخ غالباً مجھ سے اتفاق کریں گے۔ شاید ان کے داخلی اور خارجی پالیسیوں کی فلاسفی بہت مختلف ہے۔
لیکن میں آپ سے کچھ اپنے ذاتی مشاہدات شیر کرنا پسند کروں گا۔ یہ کسی ایک ملک کے ساتھ دوستانہ تعلقات یا تنازعہ سے متعلق نہیں; میں صرف مشاہدہ کر رہا ہوں کہ اس وقت کیا ہو رہا ہے۔ چین دونوں اپنے اتحادیوں اور مخالفوں کے ساتھ وفاداری اور لچک کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ شاید یہ تعلقات بنانے کے لیے چین کی تاریخی فلاسفی ہے۔
اس لئے میں نہیں سوچتا کہ چین کی طرف سے کچھ خطرات ہیں۔ میں واقعی میں ایسا تصور نہیں کر سکتا۔ لیکن یہ کہنا مشکل ہے کہ کیا امریکہ کوئی فیصلہ کرنے میں کافی صبر سے کام لے گا کیا اختلافات کے باوجود وہ اپنے شراکت داروں کا احترام کرے گا۔میں امید کرتا ہوں اور میں اسے پھر سے دہرا رہا ہوں کہ مجھے امید ہے کہ کوئی فوجی تنازعہ نہیں ہوگا۔
لیونیل باربر: ہتھیاروں کا کنٹرول، ہم جانتے ہیں کہ آئی این ایف معاہدہ سخت خطرے میں ہے۔ مستقبل میں ہتھیاروں کی روک تھام یا پھر جوری ہتھیاروں کی دوڑ سے متعلق کوئی روس کا نقطہ نظر ہے؟
ولادی میر پوتین: مجھے یقین ہے کہ اس جیسا خطرہ ہے۔
جیسا کہ میں نے پہلے ہی کہا کہ امریکہ یکطرفہ طور پر اے بی ایم معاہدے سے نکل گیا اور حال ہی میں جوہری معاہدے آئی این ایف ایف کو بھی چھوڑ دیا۔ لیکن اس دفعہ نہ صرف میں چھوڑوں گا بلکہ اسے چھوڑنے کی وجہ بھی مل گئی ہے اور یہ وجہ روس ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ روس نے اس کیس میں کچھ کیا۔کیونکہ یہ ایک جنگی تھیٹر ہے اور نیٹو کی توسیع اور نیٹو کے ہماری سرحدوں پر پڑاؤ کے باوجود یورپ کے جنگی تھیٹر میں امریکہ کی بہت دلچسپی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ معاہدے سے نکل گیا۔ اب توجہ تزویراتی ہتھیاروں کے انسداد (New START) معاہدہ کے ایجنڈے پر فوکس ہے۔ مجھے امید ہے کہ ملاقات کے دوران میں امریکی صدر ٹرمپ سے اس بابت بات کرنے کے قابل ہونگا۔
"ہم نے کہا کہ ہم روس اور امریکہ کے درمیان اس معاہدے کی توسیع اور اس پر بات کرنے کے لیے تیار ہیں لیکن امریکہ کی جانب سے کسی قسم کو کوئی اقدام نہیں کیا گیا۔ وہ مکمل طور پر خاموش ہیں جبکہ معاہدہ 2021 میں زائل (ایکسپائر) ہوجاۓگا۔ ہمارے مزاکرات شروع نہیں ہوۓ ۔ اب یہ بے سود لگتا ہے کہ کیونکہ اب تو فارملیٹیز کے لیے بھی وقت نہیں رہا۔ "
ٹرمپ سے گذشتہ گفتگو سے لگتا تھا کہ امریکہ کی دلچسپی نظر آتی ہے لیکن ابھی تک انہوں نے کوئی عملی اقدام نہیں کیا۔اگر یہ یہ معاہدہ ختم ہوگیا تو پھر ہتھیاروں کی دوڑ کو روکنے کا کوئی ذریعہ نہیں رہے گا۔ اور یہ انہتائی برا ہے۔
لیونیل باربر: کیا چین، روس اور امریکہ کی مثلث کے درمیان کسی قسم کے ثانوی جویری ہتھیاروں کے روک تھام کے معاہدے کا کوئی امکان ہے یا پھر یہ محض یہ ایک خواب ہے؟ کیا آپ اس طرح کے کسی معاہدے کے لیے تعاون کریں گے؟
ولادی میر پوٹین: جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا کہ ہتھیاروں کی دوڑ کو روکنے کی کاز کو آگے بڑھانے کے لیے ہم کسی بھی قسم کے معاہدے کے تعاون کے لیے تیار ہیں۔
پہلے بھی یہ متعدد مرتبہ کہا جا چکا ہے کہ چین کے جوہری ہتھیاروں کا سکیل امریکہ اور روس کے مقابلے میں انتہائی کم ہے۔ چین ایک بڑی طاقت ہے جس کے پاس جوہری صلاحیت کو بڑے پیمانے پر استعمار کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ لیکن ایسا مستقبل میں ہی ممکن ہے لیکن ابھی ہماری صلاحیتوں سے اس کا مقابلہ نہیں کیا جاسکتا۔ روس اور امریکہ بڑی جوہری طاقتیں ہیں اس لئے ان کے درمیان معاہدے پر دستخط ہوئے۔ اور یہ کہ کیا چین ان کاوشوں میں شامل ہوگا ، اس حوالے سے آپ اپنے چینی دوستوں سے پوچھیں۔
لیونیل باربر: روس یوروپ اور ایشیا کی طرح پیسفک کی بھی طاقت ہے۔ یہ ایک پیسفک طاقت ہے۔آپ نے دیکھا ہے کہ کس طریقے سے چینی اپنی بحری اور سمندری طاقت میں اضافہ کر رہے ہیں۔ آپ پیسیفک میں میں ان سیکیورٹی مسائل اور علاقائی تنازعات سے کیسے نبرد آزما ہوں گے؟ کیا روس سیکیورٹی معاہدے میں اپنا کردار ادا کرے گا؟
ولادی میر پوٹین: آپ نے چین کی بحری افواج کے بلڈ اپ کا ذکر کیا۔ یاداشت کے مطابق چین کا کل دفاعی بجٹ 117 بلین ڈالر ہے۔ امریکہ کا دفاعی خرچہ 700 بلین ڈالر سے زائد ہے۔ اور آپ دنیا کو چین کی فوجی تیاریوں سے خوف زدہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں؟ اس طرح فوجی اخراجات کا سکیل کام نہیں کرتا۔ نہیں بالکل بھی نہیں۔
جہاں تک روس کا تعلق ہے تو ہم اپنے پیسفک فلیٹ کی ترقی کو اپنی منصوبہ بندی کے مطابق جاری رکھیں گے۔ بلاشبہہ ہم دنیا اور مختلف ممالک کے درمیان تعلقات میں ہونے والی تبدیلیوں پر اپنا ردعمل دیتے ہیں۔ ہم یہ سب کچھ دیکھتے ہیں لیکن یہ ہمارے فوجی منصوبوں کی ترویج بشمول مشرق بعید کے منصوبہ بندی پر اثر انداز نہیں ہو سکتے۔
"ہم خود پر انحصار کرتے ہیں اور ہمیں خود پر اعتماد ہے۔ روس بڑی براعظمی طاقت ہے۔ لیکن ہماری جوہری آبدوزوں کا اڈہ مشرق بعید میں ہے، جہاں ہم اپنی منصوبہ بندی کے تحت اپنی دفاعی صلاحیتوں کو بڑھارہے ہیں جس میں شمالی سمندری راستے کا تحفظ بھی شامل ہے۔
چین سمیت متعدد ہمارے شراکت دار ہماری اس کوشش میں شراکت داری چاہ رہے ہیں۔ شاید ہم امریکی جہازرانوں اور بھارت کے ساتھ بھی کسی معاہدے پر پہنچ جائیں جنہوں نے اس شمالی سمندری راستے میں دلچسپی ظاہر کی ہے۔
میں یہ کہوں گا کہ ایشیا پیسفک کے خطہ جاتی تعاون میں ہمیں مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ اور مجھے یقین ہے کہ روس حالات کو مستحکم کرنے کے لیے قابل قدر اور مثبت کردار ادا کرسکتا ہے۔
لیونیل باربر: کیا ہم شمالی کوریا کی طرف آسکتے ہیں؟ آپ موجودہ صورتحال کو کیسے دیکھتے ہیں کیا آپ کو یقین ہے کہ کہ آخر میں کیا کوئی ڈیل یا معاہدہ ہوسکتا ہے کہ شمالی کوریا کی جوہری طاقت تسلیم کرلی جاۓ، یا ایسا ممکن ہے کہ اس کے ہتھیاروں کو تلف کردیا جاۓ؟ آپ کیا سمجھتے ہیں کیونکہ میں نے اس لیے یہ پوچھا کہ اگرچہ تھوڑا ہی سہی لیکن روس کی بارڈر شمالی کوریا سے ملتا ہے.
ولادی میر پیوٹن: آپ جانتے ہیں کہ ہم شمالی کوریا کی جوہری طاقت کو تسلیم کریں یا نہ کریں اس سے اس کے جوہری ہتھیاروں میں کمی نہیں آئے گی۔ ہمیں جدید حقیقتوں کو تسلیم کرنا چاہیے کہ جوہری ہتھیاروں نے عالمی امن اور تحفظ کو خطرات سے دوچار کر رکھا ہے۔
دوسرا اہم سوال یہ ہے ہے کہ اس مسئلے کی جڑ کیا ہے۔ لیبیا اور عراق جیسے سانحات نے دنیا کے ممالک کو ہر قیمت پر اپنی سکیورٹی کو یقینی بنانے پر آمادہ کیا ہے۔ہمیں یہاں پر شمالی کوریا کو غیر مسلح کرنے کی بات نہیں کرنی چاہیے، لیکن ہمیں میں یہ دیکھنا چاہیے کہ کس طریقے سے ہم شمالی کوریا سمیت کسی بھی ملک کو غیر مشروط طور پر تحفظ فراہم کر سکتے ہیں تاکہ شمالی کوریا سمیت کوئی بھی ملک خود کو عالمی قوانین کے تحت محفوظ سمجھے اور عالمی برادری سختی سے عالمی قوانین کا احترام کرے۔ یہ وہ ہے جس سے متعلق ہمیں سوچنا چاہیے۔
ہمیں ضمانتوں سے متعلق سوچنا چاہیے جن کی بنیاد پر ہم شمالی کوریا سے مذاکرات کو یقینی بناسکتے ہیں۔ ہمیں بیک وقت صبر سے کام لینا ہوگا اور اس کے احترام کو کو یقینی بنانا ہوگا تاکہ بتایا جاسکے کہ کس طریقے سے جوہری ہتھیاروں کی موجودگی اور جوہری سٹیٹس کی وجہ سے خطرات میں اضافہ ہوا۔
بلاشبہ صبح موجودہ حالات لات بت پر خطر ہے ہے اور مستقبل کے تناظر سر کی بھی پیشین گوئی نہیں ہوسکتی کتی ہمیں ایسے حالات بچنا چاہیے۔
لیونیل باربر: آپ نے یقیناً کار ایسا اپنے خارجی امور، سکیورٹی اور بہتر حکمت عملی کے تجربے کی وجہ سے سوچا۔ روس، چین، جاپان، اور شمالی کوریا کو سامنے رکھتے ہوئے آپ شمالی ایشیا کی سیکیورٹی صورتحال کو آئندہ 5 سے 10 سالوں میں کیسے دیکھتے ہیں؟
ولادی میر پیوٹن: آپ نے درست کہا کہ ہماری سرحدیں مشترکہ ہیں اگرچہ شمالی کوریا کے ساتھ مختصر سرحد ہے تاہم کسی بھی قسم کے مسلے سے ہم براہ راست متاثر ہوں گے۔ امریکہ کا سمندر کے اس پار ہے جبکہ برطانیہ بھی بہت دورہے لیکن ہم یہاں پر موجود ہیں اور اس خطے کا حصہ ہیں اور شمالی کوریا کی جوہری ہماری سرحد سے زیادہ مسافت پر نہیں۔ اس لیے ہمارے براہ راست تحفظات ہیں اور ہم نے کبھی اس بارے میں سوچنا ختم نہیں کیا۔
میں آپ کے گزشتہ سوال کے جواب پر آتا ہوں۔ ہمارے لیے شمالی کوریا کے جائز سکیورٹی خدشات کا احترام کرنا ضروری ہے۔ ہمیں شمالی کوریا کو محترم جاننا ہوگا۔ ہمیں اس کی سکیورٹی کو یقینی بنانے کے لیے راستہ تلاش کرنا ہوگا تاکہ شمالی کوریا کو مطمئن کیا جاسکے، اگر ہم ایسا کرتے ہیں تو صورتحال اتنی مختلف ہو جائے گی کہ جس کا کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا۔
کیا آپ کو یاد ھے کہ سویت یونین کی جانب سے کشیدگی میں کمی کی پالیسی کو اپنانے کے بعد کیا ہوا؟ کیا آپ مجھے مزید کچھ کہنے کی ضرورت ہے؟
لیونیل باربر: جناب صدر, آپ اقتدار یا اقتدار کے بہت قریب رہے ہیں۔ جب ہم ڈیوس میں ملے تھے میں نے آپ سے کہا تھا اس وقت آپ اقتدارمیں نہ تھے لیکن پھر بھی فیصلے آپ کے ہوا کرتے تھے۔ بیس سال سے آپ ٹاپ یا پھر ٹاپ کے قریب تر رہے ہیں، کیا کبھی فیصلے کرتے وقت خدشات کے بڑھنے کا سامنا رہا۔
ولادی میر پیوٹن: یہ بڑھتا یا کم نہیں ہوتا۔ خدشہ کا ہمیشہ بہترین جواز ہونا چاہیے۔ لیکن جب آپ مشہور روسی کہاوت کو یاد کریں تو پھر یہ کیس مختلف ہے جیسا کہ روس میں مشہور ہے کہ جو خطرات سے نہیں کھیلتا وہ شمپیںن نہیں کبھی نہیں پی سکتا۔ مخصوص فیصلے کرتے وقت خطرات کا مقابلہ کرنے کے قومی امکان موجود ہوتے ہیں۔ بڑے خطرے یا چھوٹے خطرے کا انحصار فیصلے کی نوعیت پر ہوتا ہے۔
"کسی بھی فیصلے کرنے کے مرحلے میں خطرہ موجود ہوتا پے۔ کسی قسم کاحتمی فیصلہ کرنے سے پہلے ہماقسمی پہلو کا جائزہ لینا ہوتا ہے۔ کیونکہ خطرہ صورتحال اور فیصلے کے نتائج سے متعلق ہوتا پے۔ حقیقی صورتحال کے احمقانہ قسم کے خدشات جامع اور واضح نتائج کو ناقابل تسلیم بنادیتے ہیں اور اس سے لوگوں کی بڑی تعداد کو پہنچنے والے فوائد ختم جاتے ہیں."
لیونیل باربر: ۔مداخلت کے فیصلے کے لحاظ سے شام کا کتنا بڑا خطرہ تھا؟
ولادی میر پیوٹن: بہت زیادہ تھا، تاہم، بلاشبہ میں نے بہت پہلے سے محتاط طور پر سوچ رکھا تھا اور میں نے ہر قسم کے حالات و نتائج کا پہلے سے باغور جائزہ لیا تھا۔ میں نے جائزہ لیا تھا کہ روس کے گرد کیسے صورتحال بدلے گی اور اس کے ممکنہ نتائج کیا ہونگے۔میں نے اس معاملے پر اپنے مددگاروں اور وزراء بشمول قانون نافذ کرنے والے اداروں اور ایجنسیوں کے سربراہان اور اعلی ترین افسران سے بات کی تھی۔ طویل مدت بعد، میں نے فیصلہ کیا کہ شام کے معاملات میں ہماری متحرک مداخلت روس اور وفاق روس کے مفادات پر مثبت اثرات مرتب کرے گی، مداخلت نہ کرنے یا خاموش مشاہدہ کرنے سے بین الاقوامی دہشت گرد تنظیمیں ہماری سرحدوں پر مزید قدم جمالیاتی۔
لیونیل باربر: شام میں جو خطرہ مول لیا گیا اس کا ریٹرن کیا ملا؟
ولادی میر پیوٹن: بہت بہتر اور مثبت ریٹرن ملا۔ میری توقعات سے بھی بڑھ کر ہم نے اہداف حاصل کیے۔ سب سے پہلے دہشتگردوں کی روس میں واپسی کی منصوبہ بندی ختم کر دی گئی۔ ہزاروں دہشت گرد روس میں میں آنے کی راہ دیکھ رہے تھے۔ وہ روس یا اس کے ہمسایہ ممالک میں آنے کی منصوبہ بندی کررہے تھے اور اس وجہ سے ہم ویزا رجیم کو برقرار نہ رکھ پاتے۔ دونوں پہلو ہمارے لئے انتہائی خطرناک تھے۔ یہ پہلی چیز ہے۔
دوسرا یہ کہ ہم نے ایک یا پھر دوسرے طریقے سے قریبی خطے کے حالات میں استحکام لانے میں کامیاب ہوۓ۔ یہ بھی سب سے زیادہ اہم ہے کیونکہ ہم نے براہ راست روس کی داخلی سلامتی کو مضبوط کیا ہے۔ یہ تیسری چیز ہے۔
چوتھا یہ کہ ہم نے تمام علاقائی ممالک کے ساتھ کاروباری قسم کے تعلقات کافی حدتک قائم کیے ہیں اور ہماری مشرق وسطیٰ میں پوزیشن بہت مستحکم ہوئی ہے۔ بلاشبہ ہم نے بہت بہترین نوعیت کے تجارتی ، دوستانہ اور اتحادی قسم کے تعلقات بڑے علاقائی ممالک جن میں ایران، ترکی اور دیگر ممالک شامل ہیں کے ساتھ قائم کیے ہیں۔
شام کے تحفظات سے متعلق بنیادی طور پر ہم نے شام کی ریاست کو بحال کیا ہے اور ہم نے لیبیا کی طرز کی بدامنی اور خانہ جنگی سے شام کو بچایا ہے۔ اور برے حالات کے تناظر میں روس پر اس سے پڑنے والے منفی اثرات کا خاتمہ کیا ہے۔
اس کے علاوہ میں روس کی فوج کو وہاں پر بھیجنے سے متعلق کھل کر بات کرونگا۔ ہماری فوج نے وہاں پر وہ عملی تجربہ حاصل کیا ہے جو امن مشقوں کے دوران حاصل نہیں ہوسکتے تھے۔
لیونیل باربر: کیا آپ تہیہ کرچکے ہیں کہ بشار الاسد اقتدار میں رہیں گے یا پھر روس شام میں لیبیا سے مختلف کیسی ٹرانزیش (منتقلی اقتدار) کی حمایت کرے گا؟
ولادی میر پیوٹن: میں اس بات پر یقین کرتا ہوں کہ شام کے لوگ اپنے مستقبل کے انتخاب میں مکمل آزاد ہیں۔ اور میں شام کے معاملات میں بیرونی کھلاڑیوں کی مداخلت کے بھی خلاف ہوں۔ لیکن شام میں ان کی مداخلت کے خطرات بااتم موجودہیں اور حوالے سے ہم اپنی مستقبل کی حکمت علمی کا جائزہ لے سکتے ہیں۔
جب ہم نے امریکہ کی سابق انتظامیہ سے اس معاملے پر مذاکرات کیے تو ہم نے کہا کہ فرض کرو کہ اسد آج اقتدار کو خیر آباد کہہ دیتا ہے تو پھر کل کیا ہوگا؟
آپ کے دوست اس پر بہت ہنسے کیونکہ بہت حیران کن جواب ملا۔ آپ تصور بھی نہیں کرسکتے کہ یہ کتنا احمقانہ جواب تھا۔ انہوں نے کہا"ہم نہیں جانتے"۔ لیکن جب آپ یہ بھی نہیں جانتے کہ کل کیا ہوگا تو پھر کولہے سے آج کیوں نشانہ لگاتے ہو؟ یہ حقیقت ہے۔
"اس لیے ہم مسائل کا مکمل طور تمام ممکنہ پہلو سے جائزہ لینے کو ترجیح دیتے ہیں اور جلد بازی نہیں کرتے۔ بے شک ہم مکمل طور آگاہ ہیں کہ شام میں کیا ہورہا ہے۔ تنازعہ کی داخلی وجوہات ہیں اور انہیں اس داخلی طریقے سے ہی حل کیا جانا چاہیے۔ اور تنازعے کے فریقین کو اپنے طور پر اس تنازعے کے خاتمے کے لیے بہتر کرنا ہوگا۔
لیونیل باربر: جناب صدر, کیا آپ کی اس دلیل کا وینزویلا پر اطلاق ہوسکتا ہے؟ دوسرے الفاظ میں آپ وینزویلا میں منتقلی اقتدار کو دیکھنے کے لیے تیار نہیں اور آپ نے صدر مادورو کو اقتدار میں دیکھنے کا تہیہ کیے ہوۓ ہیں۔
ولادی میر پیوٹن: ایسا دیکھائی دیتا ہے کہ ہم نے بہترین آغاز کیا ہے۔ میں اب جو کہنے جا رہا ہوں اسے جارحانہ نہ سمجھنا۔ آپ نہیں, کیا آپ جارحانہ سمجھیں گے؟ سنجیدگی سے ہم اس طرح کے آغاز سے بہت دور تھے، اور اب آپ واپس روس سے متعلق دقیانوسی خیالات پر واپس آگئے ہیں۔
وینیزویلا میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے ہے ہمارا اس سے کوئی لینا دینا نہیں۔ اگر آپ جانتے ہیں کہ میں کیا کہ رہا ہوں۔
لیونیل باربر: تو پھر کراکس میں ایڈوائزرز کیا کررہے ہیں؟
ولادی میر پیوٹن: اگر آپ مجھے میری بات ختم کرنے دیں تو میں یہ ابھی کہوں گا۔ اس سے کوئی مسئلہ نہیں۔
واپس (صدر) شاویز کے دور میں جائیں تو ہم نے وینزویلا کوبغیر کسی حدود و مسائل کے ہتھیار فروخت کیے۔ جیسے کہ پوری دنیا میں ہوتا ہے اور ہر ملک بشمول امریکہ، برطانیہ ، چین اور فرانس کرتا ہے ہم نے بھی ویسے ہی بالکل قانونی طور پر ایسا کیا۔ ہم نے وینزویلا کو ہتھیار فروخت کیے۔
"ہم نے معاہدوں پر دستخط کیے جن کے مطابق ہم نے فوجی آلات کی سروس، مقامی ماہرین کو تربیت بھی دینا تھی تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ یہ آلات اور ہتھیار جنگ کے لیے مکمل طور پر تیار ہیں۔ ہم نے ان آلات کی مینٹیننس سروس فراہم کی۔ میں نے اپنے امریکی پارٹنرز سمیت متعدد مرتبہ اس سے متعلق بات کی اور متعدد جگہوں پر کہا کہ روس کے کوئی فوجی دستے وہاں پر موجود نہیں۔ کیا آپ کو سمجھ آئی ہے؟ ہاں وہاں پر روس کے ماہرین اور انسٹرکٹرز موجود ہیں۔ ہاں وہ وہاں پر کام کررہے ہیں۔ صرف حال ہی میں ایک ہفتہ قبل، ہمارے مشیروں کا ایک گروپ ملک کو چھوڑ چکا ہے۔ لیکن وہ واپس آسکتے ہیں۔ "
ہمارا معاہدہ ہے کہ ہمارے جہاز مشقوں کے لیے وہاں سے پرواز بھر سکتے ہیں۔ اور یہی ہے۔ کیا ہم باغیوں یا صدر مادیرو کی حرکات و سکنات کی اپنے دوسرے پارٹنرز کی طرح نگرانی کررہےہیں؟ وہ صدر ہے ہم کیوں اس کی حرکات کو کنٹرول کریں؟ وہ کنٹرول میں ہے۔ وہ درست کررہا ہے یا غلط یہ ایک دوسرا معاملہ ہے۔ ہم اس سے متعلق اپنے فیصلے نہیں کرسکتے۔
میرا یقین ہے معاشی طور پر کئی چیزیں مختلف طور پر ہوسکتی تھیں۔ لیکن ہم نے ان میں مداخلت نہیں کی; اس سے ہمارا کوئی تعلق نہیں۔ ہم نے اربوں ڈالر کی وہاں پر سرمایہ کاری کی ہے خصوصی طور پر تیل کے سیکٹر میں۔ تو پھر کیا ہے؟ دوسرے ممالک بھی بالکل ایسا کررہے ہیں۔
ایسا دکھائی دیتا ہے کہ سب کچھ روسی ہتھیاروں کی وجہ سے محفوظ ہو گیا ہے۔ یہ سچ نہیں۔ حقیقت کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔ خودساختہ صدور اور حزب اختلاف کے رہنما کہاں ہیں؟ ان میں سے کچھ نے بیرون ممالک کے سفارتخانوں میں پناہ لے لی اور کچھ چھپ گئے ہیں۔ ہم نے انہیں کیا کرنا ہے؟ یہ معاملہ خود ونزویلا کے لوگوں کو حل کرنا چاہیے۔ اور یہی سب کچھ ہے۔
لیونیل باربر: میں نے لیبیا اور عراق سے متعلق آپ کے تجربات اور نظریات کا ونزویلا پر اطلاق کیا۔ کیونکہ آپ نے منطقی طور پر کہا کہ آپ مادیرو کے اقتدار میں رہنے کا تہیہ کر چکے ہیں اور بیرونی طرف سے منتقلی اقتدار کو نہیں دیکھنا چاہتے۔ کیا روس کی یہ پوزیشن ہے؟ یا آپ مزید یہ کہنا چاہیں گے کہ ہم گیائیدو کی حمایت کریں گے کیونکہ ہمارے ونزویلا میں تیل کے مفادات ہیں؟
ولادی میر پیوٹن: ہم ونزویلا سمیت کسی بھی ملک میں کسی بھی تبدیلی کے لیے تیار ہیں، بشرطیکہ یہ تبدیلی کسی ملک کے داخلی قواعد، اس کے قوانین اور آئین کے مطابق لوگوں کی خواہش کے مطابق ہو۔
"میرا نہیں خیال کہ لیبیا اور عراق بیرونی مداخلت کے بغیر برباد ہوتے۔ لیبیا میں حالات مکمل مختلف ہونے کی وجہ سے ایسا ہرگز وقوع پزیر نہ ہوتا۔ بلا شبہ قذافی نے کتابیں لکھیں اور اپنے نظریات دیے اور اس نے امریکی و یورپی جمہوریت کے مخصوص معیار پر عملی طور پر پورا نہیں اترے۔ "
حادثاتی طور پر حال ہی میں فرانس کے صدر نے کہا کہ امریکی جمہوری ماڈل یورپی جمہوری ماڈل سے مختلف ہے۔ اس کا مطب ہے کہ کوئی مشترکہ جمہوری اقدار نہیں۔ آپ یا آپ نہیں لیکن ہمارے مغربی پارٹنرز لیبیا جیسے خطے میں وہی معیار چاہتے ہیں جو یورپ اور امریکہ میں ہیں؟ حتمی طورپر بادشاہت ہے یا لیبیا جیسا نظام ان ممالک میں ہے۔
لیکن مجھے امید ہے کہ بطور مورخ آپ دلی طور پر مجھ سے اتفاق کریں گے۔ مجھے نہیں پتہ کہ آپ عوامی طورپر مجھ سے متفق ہوں گے یا نہیں، لیکن کیا یہ ممکن ہے کہ شمالی افریقہ کے رہائشیوں پر فرانسیسی یا سوئس جمہوری اقدار کا اطلاق کیا جائے جو ان کے جمہوری اداروں جیسے ماحول میں رہے ہی نہیں۔ یہ ناممکن ہے، کیا ایسا نہیں ہے؟ اور انہوں نے کچھ اس جیسا ان پر اطلاق کرنے کی کوشش کی۔ یا پھر انہوں نے کچھ ایسی چیزوں کے اطلاق کی کوششیں کی جس کے بارے میں انہوں نے نہ کبھی سنا تھا نہ اسے کبھی دیکھا تھا۔ یہ سب کچھ تنازعے اور اندرونی قبائلی بربادی کی طرف لے گیا۔ حقیقتاً لیبیا میں جنگ جاری ہے۔
تو وینزویلا میں ہم ایسا کیوں کریں؟ کیا ہم واپس گن بوٹ ڈپلومیسی لانا چاہتے ہیں؟ ہمیں اس کی کیا ضرورت ہے؟ کیااس جدید دنیا میں لاطینی امریکہ کی اقوام کی تذلیل کرنا ضروری ہے اور اور کیا یہ ضروری ہے کہ ان پر خارجی نظام حکومت یا رہنماؤں کو مسلط کیا جائے؟
ویسے ہم نے شاویز کے ساتھ کام کیا کیونکہ وہ صدر تھا۔ ہم نے صدرشاویز کے ساتھ بطور انفرادی کام نہیں کیا، لیکن ہم نے وینزویلا کے ساتھ کام کیا۔ اس لئے ہم نے وینزویلا کے تیل کے سیکٹر میں سرمایہ کاری کی۔
"ہم نے وینزویلا کے تیل کی کسے فراہمی کا منصوبہ بنایا اور کیوں ہم نے وینزویلا کے تیل کے شعبےمیں سرمایہ کاری کی؟ جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ ونزویلا کا تیل بہت منفرد ہے اور زیادہ تر امریکی ریفا ئنریوں کو فراہم کیا جاتا ہے۔ اس میں کیا برائی ہے؟ ہم چاہتے تھے کہ وینزویلا کے تیل و گیس کا شعبہ سرعت رفتاری، پیش بینی اور پراعتماد طریقے سے کام کرے اور اس کا تیل امریکی ریفائنریوں کو فراہم کیا جائے۔ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ اس میں کیا برا ہے۔ "
پہلے ان کو معاشی مسائل کا سامنا رہا اور پھر داخلی سیاسی مسائل سامنے آئے۔ انہیں اپنے مسائل خود حل کرنے دینا چاہیے اور جمہوری طریقے سے ان رہنماؤں کو اقتدار میں آنا چاہیے۔ لیکن جب کوئی شخص چوک میں آکر اپنی آنکھوں کو آسمان کی طرف اٹھائے اور دعویٰ کرے کہ وہ صدر ہے؟ اور پھر اگر ایسا ہی جاپان، امریکہ یا جرمنی میں کرنے دینا چاہیے۔ کیا وقوع پذیر ہوگا؟ کیا آپ سمجھ رہے ہیں کہ اس سے پوری دنیا میں بدامنی پھیلے گی؟ اس سے اختلاف کرنا ناممکن ہے۔ وہاں خالصتاً بدامنی ہوگی۔ وہ ایسا کیسے کر سکتے ہیں؟ لیکن نہیں، انہوں نے باہر سے ایسے شخص کی حمایت شروع کردی۔
شاید وہ بہت اچھا شخص ہو۔ شاید اس کے منصوبے بہترین ہوں اور وہ ونڈر فل ہو۔ لیکن کیا یہ کافی ہے کہ وہ چوک میں آ کر خود کو صدر ثابت کرے؟ کیا پوری دنیا اس کی بطور صدر حمایت کرے گی؟ ہمیں اسے کہنا چاہیے کہ وہ انتخاب میں حصہ لے اور جیتے, پھر ہم اس کے ساتھ بطور ریاستی رہنما کے کام کریں گے۔
لیونیل باربر: ہم یورپ میں ایک اور جمہوریت یہ یعنی میرے اپنے ملک کے بارے میں بات کرتے ہیں۔ آپ تھریسا مئے سے ملنے جا رہے ہیں جو کہ شاید اس کی بطور وزیراعظم آخری ملاقات ہو۔ کیا اینگلو روسی تعلقات میں بہتری کے امکانات ہیں، کیا حساس نوعیت کے معاملات جیساکہ کہ سکریپال معاملہ ہے سے آگے جانے کی امید ہے؟ یا آپ سمجھتے ہیں کہ آئندہ تین یا پانچ سال کے لیے تعلقات میں مزید انجماد آئے گا؟
ولادی میر پیوٹن: سنو، یہ جاسوسوں اور انسداد جاسوسوں سے متعلق جھگڑا اتنا سنجیدہ نہیں کہ بین الریاستی تعلقات خراب ہوں۔ جیسا کہ ہم کہہ چکے ہیں کہ یہ جاسوس کی کہانی پانچ پاونڈ یا پانچ کوپیک سے زیادہ اہمیت کی حامل نہیں۔ اور بین الریاستی تعلقات کا معاملہ اربوں روپے اور کروڑوں لوگوں کے مقدر سے جڑ ہے۔ کیسے ایک کا دوسرے سے جائزہ لے سکتے ہیں؟ ایک دوسرے پر الزام تراشی اور ایک دوسرے کو برا بھلا کہنے کی فہرست طویل سے طویل ہوتی جارہی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ آپ نے سکریپالز کو زہر دیا۔ پہلے انہیں یہ ثابت کرنا چاہیے۔
" دوسرا یہ کہ ایک اوسط درجے کا شخص سنتا ہے اور کہتا ہےکہ یہ سکریپالز کون ہیں؟ اور پھر یہ سامنے آتا ہے کہ سکریپال ہمارے ( روس) خلاف جاسوسی میں ملوث تھا۔ لہذا یہ شخص اگلا سوال پوچھتا ہے کہ آپ نے سکریپال کو استعمال کرتے ہوئے ہم پہ جاسوسی کیوں کی؟ شاید آپ کو ایسا نہیں کرنا چاہیے؟ آپ جانتے ہیں کہ یہ سوال لامحدود ہیں۔ ہمیں اس کو ایجنسیوں پر چھوڑ دینا چاہیے تاکہ وہ اس سے نمٹیں۔ "
لیکن ہم برطانیہ میں کاروبار کو جانتے ہیں (ویسے میری اپنے برطانوی ساتھیوں کے ساتھ اسی کمرے میں اس جگہ ملاقات ہوئی), وہ ہمارے ساتھ کام کرنا چاہتے ہیں، وہ ہمارے ساتھ کام کر رہے ہیں، وہ اس کام کے تسلسل کو جاری رکھنے پر آمادہ ہیں۔ اور ہم ان کی اس آمادگی کی حمایت کرتے ہیں۔
میں سمجھتا ہوں کہ مئے اپنے استعفے کے باوجود کوئی مدد نہیں کر سکتی لیکن اس کے ان جاسوسی کے معاملات پر تحفظات ہیں جس سے ہمارے تعلقات میں ڈیڈ لاک پیدا ہوا۔ لہذا ہم اپنے نے تعلقات رات کو ترقی دے سکتے ہیں اور خدا ان لوگوں کی مدد کرسکتے ہیں ہیں جو جو کاروبار کر رہے ہیں۔ وہ کاروبار سے نہ صرف رقم کما رہے ہیں بلکہ اس سے نوکریاں پیدا کر رہے ہیں، منافع دے رہے ہیں، اور اپنے اپنے ملک کے ٹیکس نظام کے محصولات میں ہر لیول پر اضافہ کررہے ہیں۔ یہ ایک سنجیدہ اور ہما قسمی کام ہے جس میں وہ خطرات شامل ہیں جن کا ذکر آپ کر چکے ہیں کاروبار چلانے سے متعلق خطرات شامل ہیں۔ اگر ہم گونا گوں سیاسی صورتحال کا اضافہ کریں گے تو وہ کاروبار کرنے کے قابل نہیں رہیں گے۔
میری سوچ کے مطابق دونوں روس اور برطانیہ مکمل طور پر اپنے تعلقات بحال کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ آخر کار مجھے امید ہے کہ کچھ ابتدائی اقدامات اٹھائے جائیں گے۔ اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ مئے کیلئے بہت آسان ہے کیونکہ وہ دفتر چھوڑ رہی ہیں اور درست ، اہم اور ضروری فیصلہ کرنے میں آزاد ہیں اور اس سے ان کو داخلی سیاسی نتائج سے بھی پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔
لیونیل باربر: شاید کچھ لوگ کہیں کہ انسانی زندگی پانچ پیسوں سے زیادہ اہم ہے۔کیا آپ کو یقین ہے کہ کیا کچھ ہوا۔۔۔
ولادی میر پیوٹن: کیا کسی شخص کی موت ہوئی؟
لیونیل باربر: ہاں، ایک نشے کے مسائل کا شکار شخص پارک میں۔ نویچوک کو چھونے سے کار پارکنگ میں ہلاک ہوگیا۔ میرے کہنے کا مطلب ہے کہ کوئی شخص پر فیوم کی وجہ سے ہلاک ہوگیا۔ نہ صرف سکریپالز بلکہ یہ ایک شخص کی موت سے زیادہ ہے۔ میں صرف۔۔۔۔۔
ولادی میر پیوٹن: اورکیا آپ سوچتے ہیں کہ یہ مکمل طور پر روس کا قصور ہے؟
لیونیل باربر: میں نے ایسا نہیں کہا، میں نے کہا کہ کوئی شخص مر گیا.
ولادی میر پیوٹن: آپ نے ایسا نہیں کہا، لیکن اس کا روس سے کوئی تعلق نہیں۔۔۔۔ہاں، ایک شخص ہلاک ہوا، اور وہ ایک سانحہ تھا، میں متفق ہوں۔ لیکن ہمیں اس سے کیا کرنا چاہیے؟
لیونیل باربر: مجھے یہ پوچھنے دیں اور میں واقعی روس کی معیشت کے بارے میں بات کرنا چاہتا ہوں۔ کیا آپ کو یقین ہے کہ سیلسبیری جہاں سے ایک مبہم پیغام سب کو بھیجا گیا میں کیا ہوا، اور کس کی سوچ تھی کہ یہ ریاست روس کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے کیا وہ ایک جائز کھیل تھا؟
ولادی میر پیوٹن: درحقیقت غداری ایک سنگین جرم ہے اور غداروں کو ضرورسزا ملنی چاہیے۔ میں یہ نہیں کہ رہا کہ سیلسبیری کا سانحہ ایسا کرنے کا ذریعہ ہے۔ ایسا ہرگز نہیں لیکن غداروں کو ضرور سزا ملنی چاہیے۔
اس سکریپال کو پہلے ہی سزا مل چکی تھی۔ وہ گرفتار ہوا، سزا ہوئی اور قید میں وقت گزارا۔ اس نے اپنی سزا حاصل کی۔ اسی وجہ سے وہ ریڈار سے باہر تھا۔ کیوں کسی شخص کو اس میں دلچسپی ہوگی؟ اس کو سزا مل چکی۔ وہ گرفتار ہوا،اس کو سزا ہوئی، اور اس نے پانچ سال جیل میں گزارے۔ تب اس کو آزاد کر دیا گیا اور یہی کچھ تھا۔
جبکہ غداری کی بلاشبہ سزا ضرور ملنی چاہیے۔ یہ ایک انتہائی سنگین جرم ہے جس کا کوئی شخص تصور کرسکتا ہے۔
لیونیل باربر: روسی معشیت ۔ آپ نے روس میں کام کرنے والوں کی حقیقی اجرت میں کمی اور توقع سے کم روس کی گروتھ سے متعلق دوسرے دن بات کی تھی۔ لیکن اس کے باوجود آپ کے غیرملکی اور بین الاقوامی ذخائر 460 ارب ڈالر ہیں۔ جناب صدر آپ کس لیے بچت کررہے ہیں؟ اس کا مقصد کیا ہے؟ کیا آپ اس رقم کو مالیاتی سہولیات کے استعمال نہیں کرسکتے؟
ولادی میر پوٹین: مجھے کچھ تفصیلات کو درست کرنے دیں۔ روس میں حقیقی اجرت کم نہیں ہوئی۔ اس کے برعکس یہ گھریلو ڈسپوزیبل آمدنی ہے جس میں کمی ہوئی۔
"اجرت اور آمدن دو مخلتف چیزیں ہیں جن میں تھوڑا سا فرق ہے۔ آمدن کو کئی پیمانوں بشمول قرضے کی قیمت سے متعین کیا جاتا ہے۔ روس میں لوگ بہت زیادہ صارفی قرضہ لیتے ہیں اور سود کی ادائیگی کا اخراجات میں شمار کیا جاتا ہے جس سے حقیقی آمدن کے انڈیکیٹرز میں کمی آتی ہے۔ اور یہ بھی کہ شیڈو معشیت قانون سازی سے گزرہی ہے۔ اور خود کی ملازمت والوں کا بڑا حصہ جو ایک لاکھ یا دو لاکھ کما رہے ہیں وہ پہلے سے ہی اپنے کاروبار کو قانونی شکل دے چکے ہیں۔ اس سے بھی آبادی کی حقیقی اور ڈسپوزیبل آمدنی پر اثرات پڑے ہیں۔
گزشتہ چار سالوں کے لیے یہ رجحان برقرار رکھا۔ گزشتہ سال ہم نے 0.1 فیصد کی معمولی شرح کا اضافہ ریکارڈ کیا۔ یہ کافی نہیں ہے۔ اس میں ابھی تک غلطی کے مارجن موجود ہیں۔ لیکن یہ ایک سنجیدہ مسلہ ہے جس سے ہمیں نبرد آزما ہونا ہے اور ہم اس سے نمٹ رہے ہیں۔
حال ہی میں حقیقی اجرت بڑھنا شروع ہوئی۔گزشتہ سال 8.5 فیصد کا اضافہ ہوا۔ اس سال مجموعی حالات کی وجہ سے اس میں نمایاں کمی ہوئی۔ میرا مطلب یہ ہے کہ گزشتہ سال ہم نے گروتھ ریکوری دیکھی اور اس میں دوسرے عوامل بھی شامل ہیں۔ تاہم یہ تسلسل جاری ہے۔ اور ہمیں توقع ہے کہ اس حقیقی گھریلو ڈسپوزیبل آمدن پر اثر پڑے گا۔
اب لوگوں کی حقیقی آمدن بھی متاثر ہوئی ہے کیونکہ ہم نے ویلیوایبل ٹیکس 18 فیصد سے 20 فیصد کردیا ہے اس سے لوگوں کی قوت خرید پر اثر پڑ ہے کیونکہ افراط زر کی شرح میں 5فیصد تک اضافہ ہوا ہے۔
"دوسرے الفاظ میں ہمیں ویلیو ایبل ٹیکس کے قلیل مدت کے لیے منفی اثرات کی توقع تھی جو کہ اب بالکل ویسا ہی عین توقع کے مطابق ہورہا ہے۔ خوش قسمتی سے اس نے کام کیا اور ہمارا حساب درست ثابت ہوا۔ اب افراط زر کی شرح میں کمی ہورہی ہے۔ بڑی اقتصادی صورتحال بہتر ہورہی ہے; سرمایہ کاری میں بتدریج اضافہ ہورہا ہے۔ ہم دیکھ رہے کہ معشیت داخلی و خارجی دھچکوں کے پیدا کردہ مسائل سے باہر نکل رہی ہے۔ خارجی دھچکے پابندیوں اور ہماری روایتی برآمداتی اشیا کی قیمتوں میں کمی کی وجہ سے تھے۔ معشیت اب مستحکم ہوچکی ہے۔
ملک کی بڑی اقتصادی حالت اب مستحکم ہے۔ یہ حادثاتی نہیں اور تمام ریٹنگ ایجنسیوں نے اس کا اندراج کیا ہے۔ تین بڑی ایجنسیوں نے ہماری سرمایہ کاری میں اضافے کی درجہ بندی کی۔ گزشتہ سال اقتصادی ترقی 2.3 فیصد تھی۔ ہم نہیں سمجھتے کہ یہ کافی ہے لیکن بلاشبہ ہم اس میں سرعت رفتار اضافے کے لیے کام کریں گے۔ صنعتی پیداوار میں ترقی کی شرح 2.9 فیصد تھی لیکن اب یہ کچھ صنعتوں میں تو 13 فیصد سے بھی بڑھ گئی ہے۔ اس لیے مجموعی طور پر ہماری معیشت مستحکم ہے۔
"لیکن سب سے اہم ذمہ داری معشیت کی ساخت کو تبدیل کرنا ہے اور مصنوعی ذہانت، جدید ٹیکنالوجی، ربوٹیکس اور اس طرح کے دیگر طریقوں سے مزدوری کی پیدواری ترقی کو محفوظ کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی وجہ سے ہم نے ویلیوایبل ٹیکس میں اضافہ کیا ہے تاکہ اس نوعیت کے کام کے لیے بجٹ فنڈ میں اضافہ کیا جاسکے کیونکہ نجی سرمایہ کاری کے لیے موزوں حالات پیدا کرنا ریاستی زمہ داری ہے۔ٹرانسپورٹ اور دیگر ترقیاتی انفراسٹرکچرز میں ریاست کے علاوہ شاید ہی کوئی ان میں ملوث ہو۔ دوسرے عوامل میں صحت اور تعلیم بھی شامل ہیں۔ وہ شخص جس کو صحت کے مسائل درپیش ہیں یا جس کی تربیت نہیں وہ وہ جدید معشیت میں موثر نہیں ہوسکتا۔"
ہمیں امید ہے کہ اہم ترقیاتی معاملات پر کام کرکے ہم اپنی لیبر پیدوار میں اضافہ کرنے کے قابل ہو جائیں گے۔ آمدن میں اضافے کو یقینی بنا کر ہم اپنے لوگوں میں خوشحالی کے آئیں گے۔
جبکہ زرمبادلہ کے ذخائر سے متعلق آپ بالکل درست نہیں۔ ہمارے پاس 460 نہیں بلکہ 500 ارب کے سونے اور غیر ملکی کرنسی کے ذخائر ہیں۔ لیکن ہماری سمجھ یہ ہے کہ ہمیں تحفظاتی جال تخلیق کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہمیں اطمینان ہوسکے اور ہم اپنے موجود زرمبادلہ کا منافع استعمال کرسکیں۔ اگر ہمارے پاس 7 فیصد مزید آتا ہے تو ہم یہ 7 فیصد خرچ کرسکتے ہیں۔
یہ وہ ہے جس کی ہم نے آئندہ سال کے لئے منصوبہ بندی کی ہے، اور بہت زیادہ امکانات موجود ہیں کہ ہم کامیاب ہوں گے۔ ایسا مت سوچو کہ یہ رقم صرف طاق میں پڑی رہے گی۔ نہیں ایسا نہیں بلکہ یہ درمیانی مدت کے لیے روس کی معیشت کے استحکام کی مخصوص گارنٹیوں کی ضامن ہے۔
لیونیل باربر: روس کے مرکزی بنک نے بڑی معیشت (میکرو اکنامکس) کے استحکام کو یقینی بنانے کے لیے قابل ستائش کام کیا ہے۔ تاہم کچھ شاہی امرا (Oligarchs) نے بنکوں کی بندش کی شکایت کی ہے۔
ولادی میر پیوٹن: سب سے پہلے جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ اب ہمارے ہاں مزید شاہی امرا نہیں۔ یہ شاہی امرا اپنے بڑے منافع کے لیے اعلیٰ حکام سے قربت کا استعمال کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں بڑی کمپنیاں نجی اور حکومتی شراکت داری والی ہیں۔ میں کسی ایسی بڑی کمپنی کو نہیں جانتا جس سے اعلی حکام ترجیحی سلوک کریں بلکہ اس کا وجود ہی نہیں۔
جی ہاں مرکزی بنک نے ہمارے معاشی نظام میں بتدریج بہتری کے لیے کوشاں ہے۔ ناقص، کم پیدوار والی کمپنیاں اور جرائم پیشہ معاشی تنظیمیں مارکیٹ کو چھوڑ رہی ہیں، کیونکہ یہ بڑے پیمانے کا اور پیچیدہ کام ہے۔
"یہ شاہی امرا یا بڑی کمپنیوں کا معاملہ نہیں; بدقسمتی سے درحقیقت وجہ یہ ہے کہ یہ عام آدمی کے مفادات کو متاثر کرتا ہے۔ ہم نے اس سے متعلق قوانین و ضوابط کا اطلاق کیا ہے تاکہ لوگوں کے معاشی نقصانات کو کم کیا جاسکے اور ان کے اقتصادی تحفظ کو یقینی بنایا جاسکے۔ لیکن ہر معاملے کو یقیناً انفرادی طور پر سمجھا جاۓ۔"
میرے خیال میں عمومی طور پر مرکزی بینک کو تعاون کی ضرورت ہے۔ یہ دونوں اقتصادی نظام میں بہتری اور شرح منافع کی پالیسی کے تعین سے منسلک ہے۔
لیونیل باربر: جناب صدر, میں واپس چین اور صدر شی جنپنگ پر آنا پسند کرونگا۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ انہوں نے پارٹی کو بدعنوانی سے صاف کرنے اور اسے قانونی طور پر مظبوط بنانے کے لیے انسدادی بد عنوانی کی سخت گیر مہم پر زور دیا ہے۔ انہوں نے سویت یونین کی تاریخ کا بھی مطالعہ کیا ہے، جہاں گورباچوف نے پارٹی کو برباداور ملک سویت کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا۔ کہ آپ کیا سمجھتے ہیں کہ کہ شی جن پنگ کا یہ نظریہ درست ہے کہ پارٹی انتہائی اہم ہے۔ اور آپ اس سے روس کے لئے کیا سبق اخذ کرتے ہیں؟ اگر میں بات کو مزید بڑھا ؤ تو آپ نے کچھ سال پہلے سویت یونین کے ٹوٹنے کو بیسویں صدی کا سب سے بڑا دکھ بھرا سانحہ قرار دیا تھا۔
ولادی میر پیوٹن: یہ دو معاملے ایک دوسرے سے جڑے ہوئے نہیں۔ جہاں تک سویت یونین کے انہدام کی بات ہے تو یہ یقینی تھا۔ میرا مطلب سب سے پہلے اس کا انسانی پہلو ہے۔ بیرون ملک بسنے والے پچیس ملین روسیوں نے ٹی وی اور ریڈیو سے سنا کہ سویت یونین ختم ہوگئی۔ کسی نے ان سے رہنے نہیں پوچھی۔ صرف فیصلہ سنا دیا گیا۔
"آپ جانتے ہیں کہ یہ جمہوریت کے معاملات ہیں۔ کیا ان سے راۓ لی گئی یا کوئی ریفرنڈم کیا گیا؟ 70 فیصد سے زائد سویت شہری اس کے بقا کے حامی تھے۔ پھر بھی سوویت یونین کے انہدام کا فیصلہ سنا دیا گیا اور لوگوں سے کسی نے نہیں پوچھا اور پچیس ملین روسیوں نے خود کو وفاق روس سے باہر پایا۔ سنو، کیا یہ المیہ نہیں؟ ایک بہت بڑا سانحہ! اور خونی رشتے؟نوکریاں، سفر؟ یہ کچھ نہیں تھا سواۓ تباہی کے۔ "
میں نے جو کچھ کہاتھا اس سے متعلق بعد میں مغربی میڈیا میں کی گئی گفتگو نے مجھے حیران کر دیا تھا۔ انہیں مختلف ممالک میں جہاں وہ رہتے ہیں اپنے والد ، بھائی اور قریبی رشتے دار کو تلاش کرتے رہنا چاہیے جہاں ان کی نئی زندگی کا آغاز ہوا ہو۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں۔
جہاں تک پارٹی اور چین میں ریاستی پارٹی کی تعمیر کا تعلق ہے تو یہ چینی لوگوں کے لیے ہے اور انہیں ہی اس کا فیصلہ کرنا ہے; ہم اس میں مداخلت نہیں کرتے۔ آج کے روس کے اپنے نے اصول اور زندگی کے قواعد ہیں جبکہ چین کی 1.35 ارب آبادی کے اپنے قوانین ہیں۔ آپ اتنی بڑی آبادی والے ملک پر حکومت کی کوشش کرتے ہیں۔ معذرت کے ساتھ یہ لگزمبرگ نہیں۔ اس لیے یہ بہت ضروری ہے کہ چینی لوگوں کو موقع دیا جائے کہ وہ خود فیصلہ کریں کہ انہوں نے اپنی زندگیاں کیسے گزارنی ہیں۔
لیونیل باربر: دوبارہ سے ایک بڑے پیمانے کا سوال۔ میں نے گفتگو کا آغاز ہی توڑ پھوڑ سے کیا تھا۔ آج کا دوسرا ایک پہلو یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اور اشرفیہ کے خلاف ہردلعزیز نمایاں ردعمل دیکھا جا رہا ہے جیسا کہ برطانیہ کا یورپی یونین سے اخراج، شاید آپ ٹرمپ کے امریکہ سے متعلق بات کر رہے تھے، آپ جرمنی میں اے ایف ڈی کے ساتھ اس کو دیکھ سکتے ہیں; آپ اسے ترکی اور عرب دنیا میں بھی دیکھ چکے ہیں۔ آپ کیا سمجھتے ہیں کہ روس اسٹیبلشمنٹ کے خلاف اس عالمی تحریک سے سے کب تک مبرا رہے گا؟
ولادی میر پیوٹن: آپ کو ہر ایک مخصوص کیس میں حقیقتوں کو دیکھنا چاہئے۔ جہاد بلاشبہ کچھ رجحانات ہیں، لیکن یہ عمومی ہیں۔ ہر ایک خاص کیس میں ہم حالات کو دیکھتے ہیں، یہ کیسے بدلتے ہیں، آپ کو اس سوال سے اس ملک کی تاریخ کو پڑھنا چاہیے، اس کی روایات اور حقائق کو بھی دیکھنا چاہیے۔
روس کب تک تک مستحکم رہے گا؟ جتنی دیر اتنا بہتر۔ کیونکہ دنیا میں بہت سے معاملات اور اس کے حالات کا انحصار استحکام اور اندرونی سیاسی استحکام پر ہوتا ہے۔ آخرکار لوگوں کی خوشحالی کا انحصارممکنہ طور پر استحکام پر ہوتا ہے۔
"سویت یونین کے ٹوٹنے کی وجوہات میں سے ایک وجہ داخلی بھی تھی کہ لوگوں کی زندگی بہت مشکل ہوچکی تھی، لوگ گھر بہت کم اجرت لیکر جاتے تھے۔ دکانیں خالی تھیں، اور لوگ ریاست کو محفوظ رکھنے کی خواہش کھو چکے تھے۔"
انہوں نے سوچا تھا کہ حالات اتنے خراب بھی نہیں ہونگے چاہے کچھ بھی ہوجاۓ۔ بہت ساری لوگوں کی زندگی اجیرن ہوچکی تھی خصوصی طور پر 1990 کی دہائی میں جب معاشی تحفظ، صحت کا نظام اور صنعت تباہ حال ہوچکی تھی۔ یہ غیر موثر ہوچکی تھی لیکن پھر بھی لوگوں کے پاس نوکریاں تھیں۔ اور انہدام کے بعد وہ وہ یہ نوکریاں کھو چکے تھے۔ اس لیے آپ کو ہر کیس کو خصوصی طور پر الگ سے دیکھنا ہوگا۔
"مغرب میں کیا ہورہا ہے؟ امریکہ میں ٹرمپ کے عجوبے کی، جیسا کہ آپ نے کہا بھی اس کی کیا وجہ ہے؟ اور یورپ میں کیا ہورہا ہے؟ حکمران اشرافیہ لوگوں سے دور ہوچکی ہے۔ اصل مسلہ اشرافیہ کے مفادات اور عام اکثریت کے مفادات میں خلا کی وجہ سے ہے۔
بے شک ہم ہر وقت اسے ذہن میں رکھتے ہیں۔ روس میں ہم کسی بھی حکومت کی موجودگی کے مقصد کے لیے ہم لوگوں کی زندگیوں میں استحکام، تحفظ اور پیش بینی کو کبھی بھی نہیں بھولتے اور لوگوں کے بہتر مستقبل کے لیے کام کرتے ہیں۔
یہاں ایک نام نہاد لبرل نظریہ بھی ہے، جس نے اپنے مقصد کو ہی ختم کردیا ہے۔ ہمارے مغربی ساتھیوں نے تسلیم کیا ہے کہ لبرل نظریے کے کچھ عناصر، جیسا کہ کثیر ثقافتی عنصر اب زیادہ پائیدار نہیں رہے۔
جب مہاجرت کا مسئلہ آیا تو بہت سارے لوگوں نے کثیر ثقافتی پالیسی کے غیر موثر ہونے کا اعتراف کیا اور اور بنیادی آبادی کے مفادات پر غور کرنے کی بات کی گئی۔ اور ہمیں ان لوگوں کی بھی مدد کرنی چاہئےجو اپنے گھروں میں سیاسی مسائل کی وجہ سے مشکلات کا شکار رہے اور وہ اپنے گھروں کو چھوڑ آئے ہیں۔ یہ بہت اچھا ہے، لیکن ان کی اپنی آبادی کے مفادات کا کیا ہوگا جب مغربی یورپ کی طرف صرف مٹھی بھر نہیں بلکہ ہزاروں کی تعداد میں لوگ ہجرت کر کے آئے ہیں؟
لیونیل باربر: کیا انجیلا مرکل سے غلطی سرزد ہوئی؟
ولادی میر پیوٹن: اعلیٰ پائے کی غلطی۔ امریکہ اور میکسیکو کے درمیان دیوار تعمیر کرنے پر ٹرمپ پر تنقید کی جاتی ہے۔ یہ بہت دور تک جا سکتا ہے۔ ہاں، شاید بہت دور۔ میں اس نکتے سے متعلق دلیل دے رہا ہوں۔ لیکن اسے مہاجروں اور منشیات کی بڑی لہر کو روکنے کے لیے کچھ کرنا ہوگا۔
"کوئی شخص کچھ بھی نہیں کر رہا۔ وہ کہتے ہیں یہ برا ہے اور وہ بھی اسی طرح برا ہے۔ مجھے بتائیں پھر اچھا کیا ہے؟ کیا کیا جانا چاہئے؟ کسی شخص نے کچھ بھی تجویز نہیں کیا۔ میرا کہنے کا مطلب یہ نہیں ہےکہ دیوار ضرورتعمیر ہونی چاہیے یا میکسیکو کے ساتھ تجارتی تعلقات میں 5 فیصد تک ٹیرف میں اضافہ ہونا چاہیے۔ یہ وہ نہیں جو میں کہہ رہا ہوں، تاہم کچھ ہونا ضرور چاہیے۔ بالآخر وہ حل کی طرف دیکھ رہا ہے۔ "
میں کن سے متعلق کہہ رہا ہوں؟ امریکہ کے عام لوگوں کے اس پر تحفظات ہیں، وہ وہ اس طرف دیکھ رہے ہیں، اور کہتے ہیں کہ یہ اس کے لئے اچھا ہے، آخر کار وہ کچھ کر رہا ہے، نظریات تجویز کیے ہیں اور حل کی طرف دیکھ رہا ہے۔
جہاں تک لبرل نظریے کا تعلق ہے ہے اس کے حامی کچھ بھی نہیں کر رہے، وہ کہتے ہیں کہ سب ٹھیک ہے، ہر چیز ایسے ہی ہے جیسے اس کو ہونا چاہیے۔ لیکن کیا ایسا ہی ہے؟ وہ اپنے آرام دہ دفاتر میں بیٹھے ہوئے ہیں، جبکہ ٹیکساس اور فلوریڈا میں لوگ خوش نہیں ہیں اور وہ ہر روز مسائل کا سامنا کر رہے ہیں، وہ جلد اپنے ہی مسائل کا شکار ہوں گے۔کیا کسی نے ان کے بارے میں سوچا ہے؟
اور یہی کچھ یورپ میں ہو رہا ہے۔ میں نے اپنے بہت سارے ساتھیوں کے ساتھ اس سے متعلق بات کی، لیکن کسی نے جواب تک نہیں دیا۔ انہوں نے کہا کہا کہ متعدد وجوہات کی وجہ سے وہ سخت گیر پالیسی نہیں اپنا سکتے۔کیوں نہیں؟ کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ ہمارا قانون ہے۔ بہتر، پھر قانون تبدیل کریں!
"اس دائرے میں ہمارے کچھ اپنے بھی مسائل ہیں۔ ہمارے سابقہ سوویت ریاستوں کے ساتھ اپنے بارڈرز کھلے ہیں، لیکن وہاں کم سے کم لوگ روسی زبان بولتے ہیں۔ کیا آپ کو معلوم ہے کہ میرے کہنے کا مطلب کیا ہے؟ اس کے علاوہ ہم نے روس میں اس سے متعلق حالات کو سٹریم لائن کرنے کے لیے کچھ اقدامات اٹھائے ہیں۔ ہم ان ممالک میں کام کر رہے ہیں جہاں سے مہاجرین آرہے ہیں، ان کے سکولوں میں روسی زبان پڑھا رہے ہیں، اور ہم ان کے ساتھ یہاں بھی کام کر رہے ہیں۔ہم نے قانون سازی سخت کر دی ہے تاکہ مہاجر ملک کے قوانین ، روایات اور کلچرکا احترام کریں۔"
دوسرے الفاظ میں روس میں بھی صورتحال اتنی سادہ نہیں، لیکن ہم نے اس کو موثر بنانے کے لیے کام کا آغاز کردیا ہے۔ جبکہ لبرل نظریے نے یہ تاثر دیا ہے کہ جیسے کچھ کرنے کی ضرورت ہی نہیں۔ مہاجر استثنا کے ساتھ قتل، لوٹ اور ریپ کر سکتے ہیں کیونکہ ان کے حقوق کو مہاجر ہونے کی وجہ سے تحفظ حاصل ہے۔ یہ حقوق کیا ہیں؟ ہر جرم کی سزا ضرور ہونی چاہیے۔
لہذا، لبرل نظر یہ متروک ہوچکا ہے۔ یہ آبادی کی زیادہ اکثریت کے مفادات کے ساتھ متنازعہ ہے۔ آبادی کے ساتھ یہ روایتی اقدار کے ساتھ بھی تنازعہ رکھتا ہے۔میں کسی کی توہین نہیں کر رہا، کیونکہ ہم نے اپنے مبینہ ہومو فوبیا کی مذمت کی ہے۔ لیکن ہمیں ایل جی بی ٹی اشخاص کے ساتھ کوئی مسئلہ نہیں۔ خدا منع کرے، ان کو ان کی خواہش کے مطابق رہنے دینا چاہیے۔ لیکن کچھ چیزیں ضرورت سے زیادہ ظاہر ہوتی ہیں۔
اب وہ دعویٰ کررہے ہیں کہ بچے پانچ یا چھے صنفی کردار ادا کرسکتے ہیں۔ میں تو صحیح طور پر کہہ بھی نہیں سکتا کہ وہ صنفیں کونسی ہیں۔ میرا اس بارے کوئی خیال نہیں۔ ہر کسی کو خوش رہنے دینا چاہیئے، ہمیں اس سے کوئی مسئلہ نہیں۔ لیکن یہ ہرگز اجازت نہیں دینی چاہیے کہ یہ ثقافت، روایات اوراکثریتی آبادی کے لاکھوں لوگوں کے خاندانی اقدار کو ماند کردے۔
لیونیل باربر: کیا سب سے اہم یہ ہے جیسا کہ آپ نے کہا کہ لبرل نظریہ ختم ہوچکا ہے، کیونکہ آپ نے بے قابو مہاجرت، کھلے بارڈرز اور یقینی طور پر معاشرے کے انتظامی اصول کے تنوع سے متعلق بات کی؟ آپ لبرل نظریے کے خاتمے سے متعلق کیا سوچتے ہیں؟ اگر میں اضافہ کروں تو کیا آپ یہ کہنا چاہیں گے کہ مذہب کو قومی ثقافت اور ہم آہنگی میں ضرور کردار ادا کرنا چاہیے؟
ولادی میر پیوٹن: اس کو اپنا موجودہ کردار ادا کرنا چاہیے۔ ثقافتی سپیس سے مذہب کو باہر نہیں نکالا جاسکتا۔ ہم کسی چیز سے بدسلوکی نہیں کرنی چاہیے۔ روس ایک آرتھوڈوکس عیسائیت قوم ہے، اور یہاں ہمیشہ سے آرتھوڈاکس عیسائیت اور اور کیتھولک دنیا کے درمیان مسائل رہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں آپ کے تھوڑے کے بارے میں کچھ الفاظ بولوں گا۔ کیا وہاں پر پر کوئی مسائل ہیں؟ ہاں مسائل ہیں، لیکن وہ حد سے زیادہ نہیں اور رومن کیتھولک چرچ خود کی تباہ کاری کے لیے انھیں استعمال کر رہا ہے۔ یہ وہ ہے جسے نہیں ہونا چاہیے۔
کبھی کبھار تو مجھے محسوس ہوتا ہے کہ لبرل حلقے نے کیتھولک چرچ کے مخصوص عوامل اور مسائل کو چرچ کی خودکار تباہی کے آلات کے طور پر استعمال کرنا شروع کردیا ہے۔ یہ وہ چیز ھے جسے میں غلط اور مہلک تصور کرتاہوں۔
"سب ٹھیک ہے، کیا ہم بھول گئے ہیں کہ ہم سب بائبل اقدار پر مبنی دنیا میں رہتے ہیں؟ یہاں تک کہ دہریے اور باقی سب اس دنیا میں رہتے ہیں۔ ہمیں ہر روز اس بارے میں سوچنے کی ضرورت نہیں، چرچ میں حاضر ہوں، نماز ادا کریں تاکہ کہ اظہار کیا جائے کہ ہم راسخ العقیدہ عیسائی، مسلمان یا یہودی ہیں۔ تاہم گہرائی میں کچھ بنیادی انسانی اصول اور اخلاقی اقدار کا ہونا ضروری ہے۔ اس حوالے سے روایتی اقدار بہت مستحکم ہیں، اور لاکھوں لوگوں کے لئے یہ لبرل نظریے سے زیادہ اہم ہیں۔ اور یہ میری رائے ہے جس کا حقیقی وجود موجود ہے۔ "
لیونیل باربر: لہٰذا مزہب، مزہب عوام کے لیے افیم نہیں؟
ولادی میر پیوٹن: نہیں یہ بالکل بھی نہیں۔ لیکن مجھے تاثر ملا ہے کہ آپ مذہب سے ہٹ گئے ہیں کیونکہ پہلے سے ہی ماسکو کے وقت کے مطابق رات کے 12.45 بج چکے ہیں۔اور آپ نے مجھے اذیت دینے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ جیسا کہ ہم یہاں کہتے ہیں کہ آپ کو خدا کا خوف نہیں، کیا ہے؟ (قہقہے)
لیونیل باربر: یہ ایک تاریخ ہے۔ میں نے کافی لمبے عرصے سے اس وقت کا انتظار کیا۔ میرا آخری سوال ہے۔ میں آپ کا شکر گزار ہوں۔ مہربانی جاری رکھیں۔
ولادی میر پیوٹن: مہربانی، آپ پوچھیں.
ہنری فوۓ: جناب صدر, کیا آپ بتائیں گے – جیسا کہ آپ نے پہلے ٹرمپ اور سٹیو بینن اور یورپ میں اقتداری گروہ کے بارے کہا۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ لبرل نظریہ ختم ہوچکا ہے، اور اب لبرل پر کیسا وقت ہوگا؟ کیا آپ دیکھ رہے ہیں کہ اس وقت زیادہ سے زیادہ آپ کے راستے پر آئیں گے؟
ولادی میر پیوٹن: آپ جانتے ہیں کے میرے مطابق خالصتاً لبرل اور خالص روایتی نظریات کبھی موجود ہی نہیں رہے۔ غالباً تاریخ انسانی میں وہ موجود تھے، لیکن اگر تنوع نہ ہو تو ہر شے بہت جلدی ڈیڈ لاک کی طرف پہنچ جاتی ہے۔ ایک یا دوسرے طریقے سے ہر شے اپنے انتہا کو پہنچ جاتی ہے۔
متعدد نظریات اور آراء کو موجودگی اور اپنے منشور کا موقع ملنا چاہیے، لیکن عام عوام اور لاکھوں لوگوں کی زندگیوں کے مفادات کو نہیں بھولنا چاہیے۔ یہ ایسی چیز ہے جس کو نظر انداز نہیں ہونا چاہئے۔
تب، اس کے بعد مجھے یہ لگتا ہے کہ ہم بڑے سیاسی تنازعات اور مصبیتوں سے بچنے کے قابل ہو جائیں گے۔ یہ لبرل نظریہ پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ اس کا مطب یہ نہیں کہ اسے فوری تباہ ہونا چاہیے۔ اس نکتہ نظر پہ اس صورتحال میں احترام کے ساتھ سلوک ہونا چاہیے۔
وہ کسی شخص کو ہدایات نہیں دے سکتے جیسا کہ وہ حالیہ دہائیوں میں کرنے کی کوششیں کرتے رہے ہیں۔ ان کی ہدایات ہر جگہ دیکھی جاسکتی ہیں: میڈیا اور حقیقی زندگی میں۔ ایسا نظر آتا ہے کچھ موضوعات کا ذکر کرنا ہوگا، لیکن کیوں؟
اس وجہ سے، میں جلدی بند کرنے، ختم کرنے، معطل کرنے، ہر شے کو ختم کرنے، ہر شخص کو گرفتارکرنے یا ہر شخص کو منتشر کرنے کا پرستار نہیں ہوں۔ لبرل نظریہ کو ختم نہیں کیا جاسکتا; اس کو موجود رہنے کا حق ہے اور کچھ چیزوں میں اس کو حمایت کی ضرورت ہے۔ لیکن آپ کو یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ اس کو مطلق غالب رہنے کا حق ہے۔ یہ اصل نکتہ ہے۔
لیونیل باربر: جناب صدر آپ اور ٹرمپ دونوں ایک ہی پیج پر ہیں۔ آپ بیس سال سے اقتدار میں رہے ہیں۔
ولادی میر پیوٹن: اٹھارہ سال سے۔
لیونیل باربر: آپ نے دنیا کے بہت سے رہنما دیکھے۔ آپ کس کے بہت زیادہ معترف ہیں؟
ولادی میر پیوٹن: پیٹر دی گریٹ۔
لیونیل باربر: لیکن وہ تو زندہ نہیں۔
ولادی میر پیوٹن: وہ اس وقت تک زندہ رہیں گے جب تک ان کا مقصد زندہ ہے۔ جیسا کہ ہم سب کا مقصد ہے۔ ہم اس وقت تک زندہ رہیں گے جب تک ہمارا مقصد زندہ ہے۔
اگر آپ کا مطلب مختلف ممالک اور ریاستوں کے موجودہ رہنماؤں سے متعلق ہے تو پھر میں کہوں گا کہ کہ میں سرفراز کے سابق صدر چیریک سے بہت زیادہ متاثر ہوں۔ وہ بہت بڑے دانشور, حقیقی پروفیسر وہ بہت قابل انسان اور ساتھ ہی بہت دلچسپ بھی ہیں۔ جب وہ صدر تھے تو ہر معاملے پر ان کی اپنی راۓ ہوا کرتی تھی، وہ جانتے تھے کہ کس طریقے سے اپنی رائے کا دفاع کرنا ہے اور کیسے اپنے دوسرے ساتھیوں کی آراء کا احترام کرنا ہے۔
آج کی موجودہ جدید تاریخ میں بہت سے بہترین اور دلچسپ لوگ موجود ہیں۔
لیونیل باربر: پیڑ دی گریٹ، عظیم روس کا تخلیق کار، کیا مجھے مزید کچھ کہنے کی ضرورت ہے؟ جناب صدر، میرا آخری سوال، عظیم رہنما ہمشیہ اپنے پیشرو کے لیے تیار رہتے تھے۔ لی کیون ییو نے اپنے جانشین کو تیار کیا تھا۔ مہربانی کرکے بتائیں کہ آپ کے جانشین کے انتخاب کا کیا طریقہ ہوگا۔
ولادی میر پیوٹن: میں بغیر کسی لگی لپٹی کے آپ کو بتا رہا ہوں کہ میں 2000 سے اس سے متعلق سوچ رہا ہوں۔حالات تبدیل ہو رہے ہیں اور لوگوں سے بھی تبدیلی کے متقاضی ہیں۔ آخر میں بغیر کسی ہچکچاہٹ کے اور بغیر کسی طوالت کے میں یہی کہوں گا کہ کہ یہ فیصلہ روس کی عوام کو ہی کرنا ہے۔ اس کا کوئی مسئلہ نہیں کہ موجودہ رہنما کیا اور کیسے کرتے ہیں، کوئی مسئلہ نہیں کہ کون اور کیسے روس کی نمائندگی کرتا ہے، حتمی فیصلہ روس کے شہریوں یعنی ووٹرز کا ہوگا۔
لیونل باربر: کیا انتخاب روس کے لوگ ووٹ کے ذریعے کریں گے یا ڈوما فیصلہ کرے گی؟
ولادی میر پیوٹن: ڈوما کے ذریعے کیوں؟ جیسا کہ پوری دنیا میں ہوتا ہے ویسے ہی خفیہ بیلٹ کے ذریعے ہوگا۔ بلاشبہ یہ آپ کے برطانیہ سے مختلف ہوگا کام کیا آپ کا میسج کیوں کہ ہم جمہوری مملکت ہیں۔
"آپ کے ملک میں ایک رہنما جا چکا ہے، اور دوسرا شخص جس کو ریاست کے اعلی ترین عھدے پر بٹھایا گیا وہ براہ راست ووٹوں سے منتخب نہیں بلکہ حکمران پارٹی نے اسے اقتدار دے دیا."
روس میں مختلف ہے کیونکہ ہم جمہوری ملک ہے۔ سوری اگر ہمارے اعلی عہدوں پر فائز لوگ کسی وجہ سے اقتدار چھوڑ جائیں یا سیاست سے ریٹائرمنٹ لے لیں جیسا کہ بورس یالتسن نے کیا، یا ان کی مدت ختم ہو جائے، تو ہم خفیہ بیلٹ کے ذریعے انتخابات کا انعقاد کر آتے ہیں۔
اس کیس میں بھی ایسا ہوگا۔ بلاشبہ موجودہ رہنما کسی کی حمایت کرتے ہیں، اور یہ تعاون ضروری ہوتا ہے اگر کوئی شخص لوگوں کے اعتماد اور احترام پر پورا اتر رہا ہوں لیکن آخر میں، منتخب روس کی عوام نہیں ہی کرنا ہے۔
لیونیل باربر: میں اس بات کی نشاندہی نہیں کر سکتا کہ تخابات سے قبل آپ صدر تھے۔
ولادی میر پیوٹن: جی ہاں،یہ سچ ہے، تو پھر کیا؟ میں نے بطورصدر کام کیا، منتخب ہونے اور ریاستی سربراہ بننے کے لیے مجھے انتخابات میں حصہ لینا پڑا، اور میں نے ایسا ہی کیا۔
تب میں روس کی عوام کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے مجھ پر دوبارہ اعتماد کیا، اس کے بعد انتخابات میں گیا۔ روس کے رہنما ہونے کا بہت ہی اچھا اعزاز ہے۔
لیونیل باربر: جناب صدر، ماسکو، کریملن میں فنانشل ٹائمز کے ساتھ وقت گزرانے کا بہت شکریہ۔
ولادی میر پیوٹن: روس میں ہونے والے واقعات میں دلچسپی پر آپ کا شکریہ، اور اس کا بھی شکریہ کہ آپ نے توجہ دی کہ روس موجودہ عالمی حالات میں کیا سوچتا ہے۔ آج کی اس دلچسپ گفتگو کا بہت شکریہ، مجھے یقین ہے کہ یہ بہت دلچسپ انٹرویو ہے۔
مہربانی، بے انتہا شکریہ!