نہ وہ خم ہے زلفِ ایاز میں
آج کے محمد بن قاسم کی ترجیحات مختلف ہیں. وہ چہرے سے کیل چھائیاں مٹانے کی فکر میں مبتلا ہے. آج کا ایوبی بھارتی گانوں کی دھنوں میں مدہوش کہیں کھویا ہوا ہے اور آج کا ٹیپو جگہ جگہ غلام ہے، کہیں اپنے نفس کا، کہیں گرین کارڈ کا اور کہیں محبوباؤں کا.
بے برکتی کی حد ہے کہ امت قحط الرجال کا شکار ہے. امت میں روزانہ لاکھوں بیٹے پیدا ہو رہے ہیں جن میں کوئی بھی غوری نہیں، غزنوی نہیں، زنگی نہیں، بیبرس نہیں، قاسم نہیں، محمد فاتح نہیں، طارق بن زیاد نہیں.
"نہ وہ غزنوی میں تڑپ رہی نہ وہ خم ہے زلفِ ایاز میں" کے مصداق آج کے مسلمان نوجوان کی غیرت ختم ہو چکی ہے. سلطان صلاح الدین ایوبی سال ہا سال ریجینالڈ کا سرقلم کرنے کےلیے سرگرداں رہا. کتنا ہی عرصہ اپنے گھوڑے کی پشت پہ جنگ کے میدانوں میں گزارا. بات پتہ ہے کیا تھی؟ ایک مسلمان قافلے پر ریجینالڈ کے حملے میں ایک مسلمان عورت نے "وا یا محمدا" یعنی فریاد یا محمد کے الفاظ پکارے تھے. ریجینالڈ نے سن کر گستاخی کی تھی اور کہا تھا کہ اب کوئی محمد تمہاری مدد کو نہیں آنے والا (معاذ اللہ). اس واقعہ کی خبر ایوبی تک پہنچی تو وہ ریجینالڈ کا سر قلم کرنے تک چین سے نہیں بیٹھا تھا. آج کا ایوبی پاپ سنگرز کا رسیا ہے اور گاہے گاہے تھرکتا نظر آتا ہے.
فطرت اپنے قوانین کی کبھی خلاف ورزی نہیں کرتی ہے اور تاریخ بھی دو جمع دو برابر ہے چار کے بالکل سادہ اصول پہ کام کرتی ہے.
یعنی تاریخ کے کسی خاص دور میں کچھ حرکتوں کی بنا پر اگر کوئی قوم تباہ ہوئی تھی تو آج کے دور میں بھی وہ اصول ویسا ہی کام کرے گا. ہم مسلمانوں نے پہلے غرناطہ اور اندلس گنوائے. اپنی عیاشیوں کے سبب. پھر ہندوستان میں مغلوں نے ہندوستان گنوایا اپنی عیاشیوں کے سبب. ہم نے پہلے بنگلہ دیش گنوایا تھا اور اب کشمیر آہستہ آہستہ گنوا رہے ہیں. اپنی عیاشیوں اور نادانیوں کے سبب. اقبال رح پھر یاد آ گئے، فرماتے ہیں۔
آ تجھ کو بتاؤں کہ تقدیر امم کیا ہے.
شمشیر و سناں اول، طاؤس و رباب آخر
یعنی امتوں کی تقدیر تیر و تلوار سے بنتی ہے اور طاؤس و رباب (آلات موسیقی یعنی گانا بجانا، ناچ کود بہ مثلِ عیاشی) سے تباہ ہو جاتی یے.
سابقہ دو حکومتیں دس سال عیاشیاں کرتی رہیں موجودہ حکومت نے نادانی کی. نتیجے کے طور پر ہم کشمیر آہستہ آہستہ گنوا رہے ہیں. قانونِ فطرت کبھی ہیچ انسانوں کےلیے نہیں بدلتے. جب تک امت میں ایوبی، ایبک اور التمش جیسے بیٹے موجود تھے امت کی بیٹیاں محفوظ تھیں اور ان کی چادریں بھی. جب سے امت میں مردوں کے نام پر کاٹھ کباڑ جمع ہونا شروع ہوا ہم پچاس سے زائد اسلامی ملک ہونے کے باوجود فلسطین اور کشمیر کی بہنوں کےلیے کچھ نہیں کر سکے. ستر سال سے وہ ہماری مدد کے منتظر ہیں، ستر سالوں سے اس بات کی منتظر کے آج پھر کوئی طارق ابن زیاد ساحلوں پہ اپنی ساری کشتیاں جلا کے ان کی مدد کو نکلے. مگر کوئی نہیں آ رہا اور کوئی نہیں آئے گا.
نا وہ مائیں باقی ہیں جو ان خطوط پہ بیٹوں کی پرورش کریں اور نا وہ بیٹے باقی رہے ہیں جن میں ایوبی والی تڑپ باقی ہے.
ہماری حالت کی مثال سرِ دست اس بدبودار مردہ لاش کی مانند ہے جو قبر کے کنارے پڑی گل رہی ہو مگر قبر میں گرنے کےلیے کسی ایک دھکے کی منتظر. ہم موجودہ مسئلہ کشمیر پر بھی قبر میں گرنے کےلیے بس ایک لات کے منتظر ہیں. یہ لات اقوامِ متحدہ مارے، او آئی سی مارے، سلامتی کونسل مارے، یو این جنیوا مارے، آئی سی جے مارے یا ایف اے ٹی ایف مارے. ہم بس ایک لات کے منتظر ہیں اور پھر یا تو قبر میں گر کے دفن ہو جائیں گے یا اٹھ بیٹھیں گے.
باقی رہ گئے ایوبی، طارق، محمد فاتح اور ٹیپو تو وہ ہم سے کوئی بھی بننے کو تیار نہیں ہے. آج شاید وہ آسمانوں کے پردوں سے جھانک کر ہماری حالتِ زار دیکھ کر افسوس سے اپنے ہاتھ ملتے ہوں گے.