امریکی تسلط ختم ہونے والا نہیں
اگرچہ عالمی معیشت کساد بازاری کی لپیٹ میں ہے ، اور کورونا وائرس کی وبا نے اس میں مزید اضافہ کردیا، امریکہ پہلے سے ہی نہ صرف اپنی معاشی بازیابی کے لیے تگ و دو میں ہے، بلکہ وہ اپنے جغرافیائی سیاسی حریفوں، روس اور چین کو ختم کرنے کی منصوبے بھی تشکیل دے رہا ہے۔ ایسا قیاس کیا جارہا ہے کہ اس موجودہ بحران سے بہت سارے ممالک کمزور ہوجائیں گے۔ مخالفین کسی بھی طور پر مزاحمت کرنے سے قاصر ہوں گے ، واشنگٹن شراکت داروں اور غیر جانبدار فریقوں کو مجبور کرکے ان کے عہدے براجمان ہونے کی کوشش کرے گا۔ لہذا ، ہر ایک کے تحفظ کے لئے ، مناسب حکمت عملی مرتب ہونی چاہئے۔
ایک ہی وقت میں کئی محاذوں پر انتقام لینے کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے ، ان میں سے ایک عالمی توانائی کا شعبہ بھی ہے۔ تیل کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ کو دیکھتے ہی ، امریکہ نے جوہری توانائی مارکیٹ کو نئی شکل دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ مسابقتی ایٹمی توانائی سے استفادہ حاصل کرنے سے متعلق امریکہ کی قومی سلامتی کی حالیہ رپورٹ میں امریکی محکمہ برائے توانائی نے کہا ہے کہ " امریکی حکومت روسی اور چینی ریاستی کمپینوں انٹرپرائزز (ایس او ای) کے زیر اثرمارکیٹوں میں داخل ہوکر دنیا میں جوہری توانائی کی بہترین قسم کی ٹیکنالوجی کو برآمد کرکے اپنا مقام بحال کرے گی۔ جوہری عدم پھیلاؤ کے بہترین معیار کو برقرار رکھتے ہوۓ امریکہ جوہری توانائی کے میدان میں عالمی رہنما بن کر ابھرے گا۔ جوہری توانائی کی مارکیٹ میں مسابقتی مقابلہ کے لیے امریکہ ایک ذمہ دار فریق کے طور پر اعلیٰ معیار کو برقرار رکھتے ہوۓ اپنی اجارہ داری کو قائم کرنے کا ہرممکن عزم کرے گا۔ رپوٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ "ٹھوس اقدامات" کے لئے متعلقہ لاگت کا تخمینہ 2021 کے بجٹ میں شامل کیا گیا ہے۔ نتیجتاً اس سال امریکہ روس اور چین کے خلاف موثر اقدامات کرے گا۔ امریکی کانگریس محکمہ توانائی کی حمایت کرے گی ، یعنی مخالف ممالک کے کاروباری اداروں کے خلاف ممکنہ طور پر پابندیاں لگائی جاسکتی ہیں۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ رپورٹ میں روس کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ اس نے توانائی کی فراہمی کو "بطور ہتھیار" استعمال کرتے ہوۓ "جوہری منڈی پر تسلط قائم کررکھا ہے"۔
عام طور پر ، اس کا مطلب جوہری ری ایکٹروں کی تیاری , اس کی فراہمی ، اور دوسرے ممالک کو ایٹمی ایندھن کی فروخت اور یورینیم تک رسائی ہے۔ مزید برآں ، اس رپورٹ میں عدم پھیلاؤ اور جوہری تحفظ کے تصور پر زور دیا گیا ہے ، جس کا اصل مقصد معائنہ کی آڑ میں امریکی مداخلت ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی (IAEA) کا رپورٹ میں کہیں ذکر تک نہیں ملتا ، حالانکہ امریکی محکمہ دفاع کے مفادات کو رپوٹ میں مکمل جگہ دی گئی ہے۔ اس رپورٹ میں: "امریکہ کی دفاعی ضروریات کی وضاحت کی گی ہے جو طویل مدتی صحت مند جوہری ایندھن کے سائیکل پر منحصر ہیں۔ فی الحال یورینیم کی دو دفاعی ضرورتیں بیان کی گئ ہیں: اول یہ کہ جوہری ہتھیاروں کے لئے مطلوبہ ٹریٹیم تیار کرنے کے لئے کم افزودہ یورینیم کی ضرورت ، اور دوم یہ کہ بحری ایٹمی ری ایکٹروں کو ایندھن فراہم کرنے کے لئے انتہائی افزودہ یورینیم کی ضرورت ہے۔
اس کا مقصد یہ ہے کہ امریکی منڈی کے لیے روسی جوہری توانائی کی فراہمی کے حوالے سے حفاظتی اقدامات متعارف کرواۓ جائیں ، اور غیر ملکی مارکیٹ میں روسی گاہکوں کے ساتھ زیادہ قربت بڑھائی جاۓ۔
اس کا مقصد یہ ہے کہ امریکی تحقیق میں اضافہ اور اس کی جوہری صنعت کو دفاعی صنعت کے طرز پر استوار کرنے کی منصوبہ بندی کی جاۓ۔
ایک ہی وقت میں ، مختلف امریکی ذرائع سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ آرکٹک کے لئے مقابلہ ہوگا۔
23 اپریل کو ، ڈنمارک اور امریکی عہدیداروں نے گرین لینڈ میں "قونصل خانہ کھولنے، باہمی تعلقات کو مستحکم کرنے اور آرکٹک میں بڑھتے ہوئے روسی اور چینی مفادات کے مقابلے کے لئے" 12 ملین ڈالر کے مالی اور سفارتی پیکیج کا اعلان کیاہے۔"
امریکی ذرائع ابلاغ کے نمائندے بھی اس خدشے کا اظہار کر رہے ہیں کہ روس نئے جوہری برف توڑ جہاز بنا رہا ہے جن سے چین کے مفادات اور شمالی سمندری راستے کا تحفظ کیا جاۓ گا۔ اس کے برعکس ، خود امریکہ کے پاس صرف دو برفب توڑنے والے جہاز موجود ہیں ، یہ دونوں ہی 1970 کی دہائی میں تیار کیے گئے تھے۔ جبکہ کوسٹ گارڈ کے لئے منصوبہ میں شامل چھے جہازوں میں سے سے صرف دو کےلیے فنڈ فراہم کیے گئے ہیں اور وہ بھی 2024 تک جا کے تیار ہونگے۔
آرکٹک (قطب شمالی) کے طول بلد کے لئے ، امریکی فوج ڈرون اور زمینی روبوٹس کی بھی جانچ کر رہی ہے۔ انھیں فروری میں الاسکا میں منعقدہ آرکٹک ایج 2020 نامی مشق میں استعمال کیا گیا تھا۔ ایک بار پھر ، میڈیا میں جاری بیان میں اس خطے میں فرضی تناؤ کا تذکرہ کیا گیا، اور پھر جب بات امریکہ کی ہو تو ، اس کا مطب روس کے ساتھ ہی تناؤ ہے۔
خطے میں چین کی سرگرمیوں کی وجہ سے امریکہ بحر الکاہل اور بحر ہند پر بھی زیادہ توجہ دے رہا ہے۔
دو سال قبل سینیٹ کی آرمڈ سروسز تصدیقی کمیٹی کی سماعت کے موقع پر ایڈمرل فلپ ڈیوڈسن نے کہا تھا کہ وہ چین کی سرحدوں پر فوجی موجودگی بڑھانے کے لئے کام کریں گے۔ اب ، امریکی افواج کی تنظیم نو کی تشکیل واضح ہونے لگی ہے۔
اپریل کی ابتدا میں ، ایک امریکی اشاعت ادارے نے رپورٹ دی کہ 31 ویں میرین ایکسپیڈیشنری یونٹ میں پہلی بار سائبر آپریٹرز کو بحر الکاہل میں یو ایس ایس امریکہ کے ساتھ تعینات کیا گیا ہے۔ اس کا مقصد سائبر سکیورٹی کے امور سے نمٹنے کے لئے مسقبل کی ٹیموں کے لئے کام کے طریقہ کار کو وضع کرنا ہے۔ سائبر آپریٹرز کی نفری کو تھائی لینڈ میں ہونے والی کوبرا گولڈ 2020 کی مشقوں کے فوری بعد 7 ویں امریکی بحری بیڑے میں تعینات کیا گیا ، جس میں جاپان ، ملائیشیا ، انڈونیشیا اور سنگاپور کے فوجی یونٹ بھی شامل تھے۔
اس کے علاوہ ، امریکی انڈو پیسیفک کمانڈ نے اعلان کیا ہے کہ اسے 20 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے ، اور اس حوالے سے درخواست پہلے ہی کانگریس کو پیش کی جاچکی ہے۔ پینٹاگون ایک خصوصی فنڈ قائم کرنے کے بارے میں سوچ رہا ہے جس کا مقصد پیسفک کے طرز پر روس کے خلاف یورپیین کنٹینمنٹ انیشیٹو کی تشکیل ہے۔ جبکہ پیسفک انیشیٹو چین سے نبرد آزمائی کے لیے مرکوز ہیں۔
ایسی جھوٹی خبریں بھی چلائی جارہی ہیں کہ چین ہلکے جوہری ہتھیاروں کے تجربات کررہاہے ، ایسے تجربات ایٹمی تجربے کی حد سے متعلق معاہدوں کی خلاف ورزی کے زمرے میں آسکتے ہیں۔
امریکہ کے پاس کوئی واضح شواہد موجود نہیں، تاہم مئی 2019 میں ، روس کے حوالے سے بھی اسی طرح کے بیانات دیئے گئے تھے۔ اب امکانات یہ ہیں کہ امریکہ جوہری ہتھیاروں کی سرگرمیوں کو تیز کرنے کا قدم اٹھا ۓ گا۔
روس پر انسداد سیٹیلائٹ میزائل کے تجربے کا بھی الزام عائد کیا گیا۔ امریکی خلائی کمان کے کمانڈر ، جنرل جان ریمنڈ نے کہا ہے کہ " امریکہ خلا میں کسی بھی قسم کی جارحیت کو روکنے ، امریکی قوم اور اسکے اتحادیوں کے مفادات کا تحفظ کرنے کے لئے مکمل طور پر تیار اور پرعزم ہے ،" جبکہ میزایل لانچنگ گاڑیوں کے تجربات " خلائی ہتھیاروں کی انسداد سے متعلق روس کی منافقانہ تجاویز کا ثبوت ہیں" ۔ تاہم، روس کی جانب سے ابھی تک کوئی سرکاری بیان سامنے نہیں آیا ہے کہ کیا واقعی "اینٹی سیٹیلائٹ میزائل" حقیقت ہے یا یہ امریکی فوج اور میڈیا کی محض قیاس آرائی ہے۔
تاہم ، یہ قیاس آرائی نہیں، بلکہ حقیقت ہے کہ امریکی خلائی فوج نے ایسے نظام کی تنصیب شروع کردی ہے جو کسی بھی غیر ملکی مصنوعی سیاروں کو جام کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے ، اور یہ اس نظام کے ہدف میں روسی خلائی سیاروں کا خصوصی تزکرہ کیا گیا ہے ۔ امریکہ کی جانب سے آئندہ چند سالوں میں نہ صرف زمین پر کام کرنے والے ریڈیو الیکٹرانک جیمنگ اسٹیشنوں کا جال بچھایا جائے گا بلکہ درجنوں نئے فوجی سیٹلائٹس کو بھی مدار میں لانچ کیا جائے گا۔
امریکی فضائیہ کے عالمی سٹرائک کمانڈ کی جانب سے بمباروں کی تعداد بڑھانے اور ہر طیارے کے پے لوڈ میں اضافے کے لئے بات چیت جاری ہے۔
اور بالآخر ، وائٹ ہاؤس نے اپریل کے شروع میں اعلان کیا کہ وہ کیریبین میں امریکی فوجی اہلکاروں کی تعداد کو دوگنا کرنے جا رہا ہے۔ اس کا تعلق امریکی بحریہ ، اسکے بحری جہاز ، امریکی فضائیہ کے حملہ کرنے والے ہیلی کاپٹر ، اور کوسٹ گارڈز کٹر سے ہے۔ امریکی وزیر دفاع نے کولمبیا میں کام کرنے والے منشیات کے کارٹلوں کے خلاف کارروائیوں میں توسیع کا حوالہ دیا ، لیکن اس اعلان کو وینزویلا پر سیاسی دباؤ کے طور پر لیا گیا۔
ان متفرق لیکن باہم وابستہ حقائق کو ایک ہی تصویر میں جوڑ کر ، ہم باخوبی دیکھ سکتے ہیں کہ امریکہ کی عالمی استعماری بھوک کم نہیں ہورہی ہے ، بلکہ روس اور چین کے خطرات کی آڑ میں پینٹاگون اور امریکی محکمہ خارجہ دونوں مل کر ملک کے جغرافیائی سیاسی
غلبے کو محفوظ اور مستحکم بنانے کے لئے کام کر رہے
ہیں۔