روس کو نیا دھچکا: روس کے فوجی صنعتی کمپلیکس کے خلاف پابندیاں

10.05.2018

امریکہ کی مسلح افواج کی کمیٹی نے تجویز دی ہے کہ امریکی صدر کو اختیار دیا جائے کہ وہ روس کے فوجی صنعتی کمپلکس کے ساتھ منسلک اسلحہ کے ٹھیکے داروں پر پابندی لگا سکے۔ یہ تجویز امریکی محکمہ دفاع کے اخراجات اور پالیسی 2019 کے بل میں دی گئی ہے اور اس تجویز کو کمیٹی کی ویب سائٹ پر ںھی شائع کیا گیا ہے۔

معاہدے کی روح

بل کے مطابق پابندیوں کا اطلاق ان تمام پر ہوگا جو روسی صنعت کی حمایت کرتے ہیں یا ان کی توجہ روسی دفاعی صنعت کے روایتی فوجی ہتھیاروں ، اعلی درجے کادفاعی سازوسامان اور جدید پیداواری یونٹس کی سپلائی چین پر مرکوز رہتی ہے۔

کیا بل منظور ہو جائے گا، اس کو اختیار کرنے کے 120 دن کے بعد، امریکی صدر کو کانگریس میں ہتھیار یوں کی فراہمی سے متعلق رپورٹ پیش کرنا ہوگی۔

امریکی دہشتگردوں کا دفاع

سب سے اہم یہ ہے کہ اگر بل پاس ہو گیا تواس سے پابندیاں لگانے کا وسیع اختیار مل جائے گا اس میں دہشت گردی کا شکار ریاست جو روس سے فوجی سازو سامان لے رہی ہے کو بھی شامل کیا جا سکتا ہے۔ یہ دستاویز امریکہ سے اختلاف رکھنے والی کسی بھی حکومت کو سزا دینے کیلئے استعمال ہوسکتی ہے۔ یہ سب کچھ دمشق کی سرکاری حکومت کی طرف اشارہ کرتا ہے شام میں انتخابات کے نزدیک آتے ہی اس کا ناطقہ بند کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ بل میں سب سے زیادہ اہم یہ ہے کہ امریکی صدر کو یہ بھی اختیار دیا گیا ہے کہ وہ ان لوگوں کو جن کی سر گرمیاں امریکہ کے قومی مفادات کے لئے عزیز ہیں کو پابندیوں سے مستثنیٰ قرار دے سکتا ہے۔

اگر بل پاس ہوجاتا ہے تو جنگ میں فعال امریکی حمایت یافتہ قوتوں کو اضافی تعاون حاصل ہوگا۔

امریکہ کے قومی سلامتی کے مقاصد کی حمایت

یہ مکمل وفاداری کی آزمائش جیسا ہے، روسی ہتھیار خریدنے والوں کو یہ ثابت کرنا ہوگا کہ وہ امریکہ کی قومی سلامتی کے مقاصد کی مکمل حمایت کرتے ہیں اور انہیں روسی دفاعی شعبے پر انحصار کم کرنے کی مکمل یقین دہانی کرانی ہوگی تب واشنگٹن کو یہ اختیار ہوگا کہ وہ ان پر 180 دن کے لیے پابندیاں ختم کردے، یہ پابندیوں سے متعلق ترمیمی ایکٹ Countering America's Adverseries Through Sanctions Act   کے باپ 31 کا ابتدائیہ ہے۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ قانون منظور ہونے کے بعد ،120 دنوں کے اندر امریکی صدر کو روسی ہتھیاروں کی تجارت کے پروگراموں سے متعلق ایک رپورٹ ضروری طور پر امریکی کانگریس میں پیش کرنی ہوگی۔

بل کی پس پردہ وجوہات

روسی خبررساں ادارے طاس کے ذرائع کے مطابق پابندیوں کے اس ترمیمی قانون (جس کے مصنف ریپبلکن  کمیٹی کے سربراہ میک تھورن بیری) کو متعارف کرنے کی وجہ پینٹاگون کے سربراہ جیمز میٹس کی کانگرس سے کی گئی اپیل ہے، کیونکہ انہوں نے پہلے ہی واضح کیا کہ پابندیوں کا یہ قانون امریکہ کی اندرونی اور فارن پالیسی کو مفلوج کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، حال ہی میں میٹس  نے امریکی اسٹیبلشمنٹ کی پالیسیوں سے متضاد بیانات دیے۔ خصوصی طور پر شام کے مسئلے پر انہوں نے کہا کہ پینٹاگون کو شام کی خانہ جنگی میں حصہ دار نہیں بننا چاہیے۔

تاہم امریکی دفاعی حکمت عملی 2 جنوری 2018 میں شائع ہوئی اس میں امریکی دفاعی پالیسی اور امریکی فوجی مشینی عمل کے اصولوں کی وضاحت کی گئی اور اس میں چین اور روس کو امریکہ کے ایم حریفوں کے طور پر پہچانا گیا، فوجی حکمت عملی میں تبدیلی منطقی طور پر امریکہ کی 2017 کی قومی سلامتی پالیسی کے اصولوں پر کی گئی۔
یہ امریکی دفاعی پالیسی اور امریکی فوجی مشین کے عمل کے اصولوں کی اہم ترجیحات کی وضاحت کرتی ہے؛  یہ چین اور روس کو امریکی اہم حریفوں کے طور پر بھی نشان لگا دیتا ہے.  فوجی حکمت عملی میں تبدیلی منطقی طور پر 2017 کے نئے امریکی "قومی سلامتی کی حکمت عملی" سے ہے. لامحالہ روس پر مزید دباؤ کو بڑھایا جائے گا اور یہ موجودہ بل ماسکو پر لگائے گئے الزامات؛ جیسا کہ دہشت گردوں سے تعاون، لابنگ اور انتخابات میں مداخلت وغیرہ کو تقویت دینے کے مترادف ہے۔  روس کا فوجی صنعتی کمپلیکس اس کی معیشت کا اہم جزو ہے اور اب اس پر پابندیاں لگا کر امریکہ روسی معیشت کو ہر ممکن طور پر تباہ کرنا چاہتا ہے.

تاہم امریکہ کی ان کوششوں میں سب سے بڑی رکاوٹ اس کے اپنے اتحادی ہیں جو روس کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کرنے کے گناہ کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ امریکہ کا مسئلہ یہ ہے کہ روس ہتھیار برآمد کرنے والا دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے۔ امریکی اشاعتی ادارے بزنس انسائڈر نے اپنی ایک رپورٹ میں یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ماسکو دنیا کے تقریبا سو سے زائد ممالک کو اپنے ہتھیار فراہم کیے۔

یہاں یہ بات اہمیت کی حامل ہے کہ روسی ہتھیار بنانے والے ادارے ان ممالک کو ہتھیار فراہم کررہے ہیں جو متبادل کے بارے میں سوچنے کو تیار ہی نہیں۔

واشنگٹن میں روس اور یوروایشیا کے مرکز کی ڈریکٹر اولگا اولیکر کے مطابق یہ تصور کرنا ہی مشکل ہے کہ امریکہ بھارت کے خلاف جائے گا جبکہ بھارت اپنی دفاعی ضروریات کا سب سے زیادہ انحصار روس پر کرتا ہے اور ترکی نے بھی امریکا پر واضح کردیا کہ وہ وہی کریں گے جو وہ سوچتے ہیں۔