پیوٹن -ٹرمپ تعلق: معانی اور نتائج

24.07.2018

برسلز میں نیٹو اجلاس سے شروع ہونے والا ٹرمپ کا دورہ پیوٹن کے ساتھ  ملاقات کے بعد اختتام پذیر ہوا ۔ اس کے بعد دونوں نے 2016 کے صدارتی الیکشن میں روسی مداخلت کے الزامات سے متعلق ایک قابل ذکر کانفرنس کی۔

پیوٹن نے ان الزامات کی مکمل تردید کی اور ٹرمپ نے بھی انہیں مسترد کرتے ہوئے مختصر طور پر یہ یہ کہا کہ انہیں روسی صدر پر اپنے انٹیلیجنس مشیروں سے زیادہ یقین ہے۔ بین الاقوامی تعلقات عامہ کے اس پروگرام میں ٹرمپ بار بار اپنی جائز سیاست کا دفاع کرتے نظر آئے ان کا کہنا تھا کہ یہ کتنا قابل شرم ہے کہ ان کی انتخابات میں کامیابی کو شک کی نگاہ سے دیکھا جائے۔

ٹرمپ عالمی لابی کے کنٹرول میں نہیں!

ٹرمپ پیوٹن ملاقات نہایت ہی اہمیت کی حامل ہے۔ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ ٹرمپ مکمل طور پر عالمی لابی کے کنٹرول میں نہیں اور اور اس لابی کے خلاف ٹرمپ میں مزاحمت کی بھی طاقت ہے۔ سوال یہ نہیں کہ ٹرمپ پیوٹن کے ساتھ وفادار ہے یا نہیں۔ بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ وہ اپنی سمجھ کے مطابق اپنے ملک اور اس کے مفادات کے ساتھ بہت زیادہ وفادار ہے۔ لیکن سب سے اہم یہ ہےکہ ٹرمپ نے اپنے ویژن کی ترویج کی خواہش کا اظہار کیا کہ کون اس کا دشمن ہے اور کون امریکی عظمت کا ممکنہ اتحادی ہوسکتا ہے۔

روس کے ساتھ جنگ!

روس کے ساتھ جنگ اور پیوٹن کو مسلسل بد نام کرنا ٹرمپ کا سیاسی مقصد نہیں اور اس نے اس حوالے سے واضح بھی کردیا ہے۔ تاہم بہت سارے ایسے معاملات ہیں جن پر روس امریکہ کی معاونت کر سکتا ہے۔ جبکہ حقیقی نقطہ نظر تو یہی ہے کہ امریکہ کی فارن پالیسی سے متعلق عام اور روایتی سچ بولا جائے۔  لیکن یہ یک دنیا کے خیالاتی تصور، جدت پسند لبرل اور گلوبلسٹ کے غلبے کی وجہ سے تقریبا ناپید ہو چکا ہے۔ ٹرمپ امریکی اسٹیبلشمنٹ سے زیادہ امریکی ہے۔ اسی وجہ سے ٹرمپ کو منتخب کیا گیا اور اس نے ثابت بھی کیا کہ وہ اس ایجنڈے کو مزید آگے لے کر جانا چاہتا ہے۔ اگرچہ گذشتہ مہینوں میں ڈیپ سٹیٹ کے دباؤ کی وجہ سے وہ اپنے نظریے میں متزلزل ہوا تاہم اب وہ دوبارہ اپنے لائحہ عمل کے ساتھ واپس آ چکا ہے۔

پیوٹن مسئلہ نہیں!

پیوٹن کے ساتھ ملاقات کوئی زیادہ مسئلہ نہیں۔ پیوٹن پہلے ہی ایک سخت گیر شخص کے ساتھ اپنے ملک کے مفادات اور اقدار جنگ لڑ چکے چکے تھے۔ پیوٹن کی عظمت یہی ہے کہ وہ اپنے ملک کی اقدار کو بحال کرنے کے خواہشمند ہیں۔ لیکن ٹرمپ جہاں تک ممکن تھا اپنے ایجنڈے کو استدلالی انداز میں آگے بڑھایا تاکہ مستقبل میں جہاں سے نتائج برآمد ہونے کی امید نہ ہو وہیں اس موضوع کو ہی چھوڑ دے۔ یہی اس کے سوداگری کے طریقے کار ہیں اور یہی تو کامیابی ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ٹرمپ نے جو جو کیا وہ ایک عظیم فتح ہے لیکن یہ ابھی ابتدا ہے۔

ٹرمپ کی واپسی!

کیوں نہ روشن خیال اور کثیر قطبی شناخت رکھنے والے سیاستدان اور مفکر سٹیو بینن( Steve Benin) کو واپس لایا جائے؟

نتیجہہ: گلوبلسٹ جس طریقے سے ٹرمپ کو پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں وہ اس سے کہیں زیادہ طاقتور ہے۔ وہ وہی کچھ کررہا ہے جو وہ پہلے کہا کرتا تھا اور اب پہلا مثبت نتیجہ بھی سامنے آچکا ہے ہم نومبر اور اس کے بعد ٹرمپ کو زیادہ شدت سے چاہتے ہیں۔